کیا نابالغی کا نکاح توڑا جا سکتا ہے

 سوال نمبر 2447


السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکا اور لڑکی کا 10 سال کی عمر میں ان کے ماں باپ نے دونوں کا نکاح کرا دیا تھا اب  لڑکی ان کے گھر جانے سے منع کر رہی ہے اور لڑکی کے ماں باپ بھی بھیجنے کو منع کر رہے ہیں اب ایسے میں اس لڑکے کو کیا کرنا چاہیے اور لڑکے کے ماں باپ کو کیا کرنا چاہیے اس مسئلے پر قران و حدیث کے ذریعے روشنی ڈالیے گا بڑی مہربانی ہوگی

المستفتی: محمد نظام گرام مرزاپور کریم الدین



                 {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

الجواب بعون الملك الوهاب: لڑکی چونکہ ۹ نو سال کی عمر میں غالباً بالغ ہوجاتی ہے جیساکہ ”فتاویٰ مرکز تربیت افتاء“ میں ہے: کہ لڑکی کم سے کم نو برس اور زیادہ سے زیادہ پندرہ برس میں بالغ ہوجاتی ہے(کتاب النکاح ، جلد ١، صفحہ ٥٢٦، مطبوعہ فقیہ ملت اکیڈمی)۔

اب اگر لڑکی میں نو سال کے بعد بلوغت کی کوئی نشانی پائی جاتی ہے تو وہ بالغ ہے اور بالغہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے۔

اور اگر لڑکی میں پندرہ برس مکمل ہونے سے بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوئے تو وہ نابالغہ ہے اور نابالغہ کا نکاح اگر اس کے والدین نے کردیا تو وہ نکاح لازم ہوگیا اب اسے اور اس کے والدین بغیر کسی وجۂ شرعی کے نکاح فسخ کرنے اجازت نہیں ہے۔

جیساکہ ”فتاویٰ فقیہ ملت“میں ہے:

 ہرگز صحیح نہیں اس لئے کہ باپ یادا دا کا کیا ہوا نکاح اس طرح لازم ہو جاتا ہے کہ لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد اختیار فسخ نہیں ہوتا۔(کتاب النکاح، باب الولی والکفؤ، ج ۱، ص ٤١١، ط شبیر برادرز لاہور)۔

جب والدین نے اپنی بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت سے کیا یا نابالغہ کا اپنی مرضی کے مطابق کیا تو وہ نکاح لازم ہوگیا 

جیساکہ فتاویٰ عالمگیری“میں ہے:

 فَإِنْ زَوَّجَهُمَا (ای: الصغیرٙ او الصغیرةٙ) الْأَبُ وَالْجَدُّ فَلَا خيَارَ لَهُمَا بَعْدَ بُلُوغِهِمَا اھ

ترجمہ: پھر اگر بچے اور بچی کا نکا ان کے باپ دادا نے تو بعد بلوغ ان کے لئے کوئی اختیار نہیں ہے۔(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء، ج ١، ص ٢٨٥، ط بولاق مصر المحمية)۔ اب جب تک شوہر طلاق نہ تب تک انہیں فسخ کی اجازت نہیں ہے، اب اگر لڑکی کے والدین اس کو نہ بھیجیں تو گنہگار ہوں گے۔

اور اگر بغیر کسی شرعی وجہ کے وہ لڑکی اپنے شوہر کے یہاں جانے سے منع کرے تو وہ بھی گہنگار ہوگی اور ایسی عورت کے متعلق حدیث پاک میں وعید آئی ہے۔


جیساکہ مشکوۃ المصابیح میں ہے:

عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أیما امرأة سألت زوجھا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیھا رائحة الجنة، رواہ أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجة والدارمي۔

ترجمہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسی عورت جو بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

(کتاب النکاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، ص: ۲۸۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


 لہذا اب اگر لڑکی بالغہ تھی اور اس کا نکاح اس کے والدین نے اس کی اجازت کے بغیر کردیا تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ چاہے تو وہ اپنا نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو فسخ کردے اسے اختیار ہے۔

لیکن اگر اس کا نکاح اس کے والدین نے اس کی اجازت سے کیا تھا تو وہ نکاح لازم ہوگیا اب اس کے لئے کوئی اختیار نہیں ہے۔

اور اگر لڑکی نابالغہ تھی اور اس کے والدین نے اس کا نکاح کردیا تو اب اس کے لئے حکم یہ ہے کہ اس کا وہ نکاح لازم ہوگیا اب اس کے لئے کسی وجہ شرعی کے بغیر اپنے شوہر کے یہاں جانے سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن جب دونوں میں اتفاق اور سمجھوتا Agreement کی کوئی صورت نہیں بن پارہی ہے کہ لڑکی کے گھر والے بھیجنے سے منع کررہے ہیں اور لڑکی خود بھی جانے سے منع کررہی ہے تو عیاں ہے کہ اس صورت میں وہ حدود شرعیہ قائم نہ رکھ سکیں گے اس لئے لڑکی کو چاہیے کہ اپنے شوہر سے خلع لے لے۔ واللّٰه تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔


کتبه: العبد الأحقر وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور (راجستھان)۔

١٩ صفر المظفر ١٤٤٥۔    بروز بدھ 

6 ستمبر 2023







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney