فوریورforever کمپنی میں کام کرنا کیساہے؟

 سوال نمبر 2448


السلام علیکم و رحمة الله وبرکاته 

سوال .کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کی ایک کمپنی ہے  جس کا نام my forever India haiجس میں کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ کمپنی کا پرچار کرنے کے لئے لوگوں کو جوائن کیا جائے اور جوائن ہونے کے لئے شروع میں 29 ہزار روپے کا سامان لینا پڑتا ہے جس میں جوس اور دوائی شیمپو اور کئی ساری چیزیں ہوتی ہے اُن سب چیزوں کو لینے کے بعد ہم اس کمپنی میں جوائن ہوجاتے ہیں جوائن ہونے کے بعد اگر ہم نے کسی ایک انسان کو جوائن کیا تو کمپنی اس ایک آدمی کے جوڑنے پر ہمیں کچھ رقم دیتی ہے تو کیا ایسا کام کرنا جائز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   جواب عنایت فرمائیں۔۔۔۔


             {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

الجواب بعون الملک الوھاب: اللھم ھدایۃ الحق؛ کمپنی کے متعلق جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس سے واضح اور آشکار ہوتا ہے کہ یہ ایک نیٹ ورک مارکیٹنگ کی شکل ہے جس میں باہم متمایز مفاسد اور خسارے پائے جاتے ہیں مثلاً غرر و فریب (دھوکہ دہی) اور غیر منسلکہ و غیر متعلقہ شرائط وغیرہ۔ اور اس میں مطلوب اصلی اور نصب العین سامان کی خرید وفروخت نہیں ہوتی بلکہ کمپنی کا ممبر بننا مقصود ہوتا۔

جس میں عموماً یہ ہوتا ہے ایک فرد کمپنی میں شامل ہونے کے لئے اس کمپنی کی مخصوص رقم کمپنی کے پاس یکجا (اکٹھا) کرواتا ہے اور اس کے بدلے اس کمپنی کی اشیاء خریدتا تو اسے ممبر بنا دیا جاتا ہے۔ اب یہ آدمی مزید لوگوں کو کمپنی کے ممبر بنانے کے لیے تیار کرتا ہے، اور اس کے تعارف introduction کرانے سے جو لوگ ممبر بنتے ہیں ان کے ممبر بننے پر مذکورہ فرد کو ممبر فیس کا مخصوص حصہ مل جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ آگے جاری وساری رہتا ہے اور پہلے فرد کو بغیر کسی محنت و مشقت کے مخصوص حصہ ملتا رہتا ہے۔ 

١, اس کمپنی میں جوائن ہونے کے لئے اس کمپنی کی جانب سے مقررہ رقم کے بدلے اشیاء خریدنا شرط ہے جو کہ اجارہ بہ شرط کے حکم میں ہے اور یہ ناجائز ہے۔

  وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود علیہ وھو من أهل الاستحقاق یفسده (ھدایہ: (۳/۵۹)

اور ہر وہ شرط جو عقد کے لیے ضروری نہ ہو اور اس میں متعاقدین میں سے کسی کو یا عقد کرنے والے کو فائدہ ہو اور وہ اہل حق میں سے ہو تو وہ اسے باطل کر دیتا ہے۔

٢, اور اگر اس کو اجارہ کہا جائے تو اس کی شرائط کی صحت میں سے ہے کہ اجرت اور منفعت معلوم ہو، اور مذکورہ طریقہ کار میں کوئی منفعت یعنی محنت اور عمل کی مقدار متعین نہیں ہوتی ہے، مثلاً آپ کو اتنے دن تک ممبر سازی کے لیے محنت کرنی ہے،

در مختار میں ہے: 

وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين... ويعلم النفع ببيان المدة كالسكنى والزراعة مدة كذا أي مدة كانت وإن طالت۔ 

ترجمہ: اس کی شرط (یعنی اجارہ) یہ ہے کہ کرایہ اور فائدہ معلوم ہو، اور فائدہ مدت بتانے سے معلوم ہوتا ہے، جیسے اتنی مدت کے لئے رہائش اور کھیتی، خواہ وہ کتنی بھی مدت ہو اگرچہ طویل ہو۔

(در مختار مع رد المحتار ، کتاب الاجارۃ ، جلد ۹ ، صفحہ ٧ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)۔


محقق مسائل جدیدہ حضور مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ رضوی مدظلہ النورانی رقم طراز ہیں کہ: 

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دو کام ہوتے ہیں۔ مقررہ دام پر کمپنی کی اشیا کی خریداری اور ممبر سازی۔ ممبر بننے اور آئندہ ممبر بنا کر کمیشن کا حق حاصل کرنے کے لیے خریداری شرط ہے ۔ دام کے عوض خرید و فروخت عقد بیع ہے اور ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنا عقد اجارہ ہے۔ کمپنی ممبر سازی کے لیے خریداری کی شرط رکھتی ہے ۔ یہ اجارہ بہ شرط بیع “ ہے اور ممبر بننے والے خریداری اس شرط پر کرتے ہیں کہ آئندہ انھیں ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنے کا حق ملے تو ان کی جانب سے یہ بیع بہ شرط اجارہ “ ہے۔

الف : ”بیع بہ شرط اجاره “ ہو یا اجارہ بہ شرط بیع “ دونوں نا جائز ہیں اس لیے کہ حدیث شریف میں بیع مع شرط سے ممانعت آئی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔

ب: کمپنی کی اشیا اپنی کوالیٹی اور معیار کے لحاظ سے کم دام کی ہوتی ہیں۔ مگر انھیں بہت اونچے معیار کی اور زیادہ دام کی بتایا جاتا ہے۔ یہ دھوکا ہوا جسے حدیث میں خش کہا گیا ہے ۔ یہ ناجائز ہے۔

آئندہ ممبر بنا لینا اور کمیشن کا فائدہ پانا محض ایک امید موہوم ہے۔ نوے فیصد لوگ اس میں ناکام رہتے ہیں، تو یہ ایک طرح کی جوے بازی ہے جس میں فائدہ اور نقصان  دونوں کا خطرہ لگا رہتا ہے ۔ جوے بازی بھی ناجائز و حرام ہے۔

ہ: پھر یہ خرابیاں ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتیں اگر ممبر سازی کا دائرہ بڑھتا ہے تو ان خرابیوں کا دائرہ بھی اگلے افراد تک بڑھتا جائے گا اور ناجائز و حرام کا ایک لمبا سلسلہ بنتا جائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کاروبار بے شمار مفاسد اور بے شمار گناہوں کے طویل سلسلے پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس کے ناجائز و حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے دین ومال کی خیریت اسی میں ہے کہ ایسے کاروبار سے بالکل دور رہیں اور اس جال میں ہر گز نہ پھنسیں۔ ہاں جن لوگوں نے اس طرح کوئی چیز خریدی ہے وہ اس کے مالک ہو گئے اس کا استعمال ان کے لیے روا ہے اور جنھیں اپنی خریداری پر کوئی کمیشن ملا اسے بھی وہ اپنے کام میں لاسکتے ہیں مگر اس معاملہ کو ختم کرنا اور آئندہ اس سے بچنا ان پر واجب ہے۔

 (مجلس شرعی کے فیصلے،ج ۱، ص ٣٢٦، مطبوعہ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ)۔


لہذا مذکورہ صورت میں my froever India نامی کمپنی میں 29 ہزار روپے جمع کرنا اور اس کے بدلے اس کمپنی کی سمت سے جوس اور دوائی شیمپو وغیرہ چیزیں چاہے ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو جوائن ہونے کے لئے لینا جو کہ عموماً بازار کے بھاؤ سے زیادہ کی ہوتی ہے یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے

پھر جوائننگ کے بعد کسی دوسرے کو اس سے جوڑنا اور اس کے بدلے اس کو کمیشن ملنا یہ بغیر کسی مشقت کے ہے جو جائز نہیں ہے

لہذا ایسی کمپنی میں خود جڑنا اور دوسروں کو جوڑنے کا کام کرنا شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے۔ واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔


کتبه وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)

١٨ صفر المظفر ١٤٤٥۔ بروز منگل

5 ستمبر 2023







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney