کوئی عاقلہ بالغہ خود کو ہبہ کرے اور مرد قبول کر لے تو

 سوال نمبر 2449


السلام علیکم و رحمتہ اللہ تعالیٰ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہذا کے تعلق سے کہ 

کوئی  عاقلہ بالغہ لڑکی اگر بولے کہ میں اپنے آپ کو آپ پر ہبہ کرتی ہوں اگر مرد بولے کہ میں نے قبول کیا تو کیا نکاح ہو جائے گا یا نہیں برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

السائل ۔ غلام مصطفیٰ رضوی ثقافی پورنوی بہار الہند


               {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب: عاقلہ بالغہ لڑکی نے مرد سے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کیا اور مرد نے اس کے جواب میں کہا میں نے قبول کیا اور گواہ موجود تھے (کیونکہ نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا شرط ہے گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا) اور عورت کا لفظ ہبہ سے  نکاح کا ارادہ تھا اس پر کوئی قرینہ بھی پایا گیا مثلاً گواہوں کو بلا کر انہیں بتا دیا یا مہر کا ذکر کیا تو نکاح ہوجائے گا۔

عالمگیری میں ہے: 

فينعقد بلفظ الهبة هكذا في الهداية… وينعقد بلفظ التمليك والصدقة و بلفظ البيع هو الصحيح هكذا في الهداية ” اھ ملخصاً۔

ترجمہ: لفظ ہبہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا ایساہی ھدایہ میں ہے، اور لفظ تملیک اور صدقہ اور بیع کی لفظ سے بھی منعقد ہوجائے گا یہی صحیح ہے اور ایساہی ھدایہ میں بھی ہے۔

(جلد ٢, صفحہ ٢٩٩, کتاب النکاح, الباب الثانی فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد بہ)۔

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 

وإن أضيفت إلى الحرة فإنه ينعقد من غير هذه القرينة لأن عدم قبول المحل للمعنى الحقيقي، وهو الملك للحرة، يوجب الحمل على المجاز فهو القرينة، فإن قامت القرينة على عدمه لا ينعقد، فلو طلب من امرأة الزنى فقالت وهبت نفسي منك فقال الرجل قبلت لا يكون نكاحا، كقول أبي اللیث وهبتها لك لتخدمك فقال قبلت، إلا إذا أراد به النكاح، كذا في البحر ط.

ترجمہ: اگر آزاد عورت کی طرف اضافت کی گئی تو بغیر قرینہ کے نکاح منعقد ہوجائے گا اس لیے کہ معنی حقیقی کے قبول کا محل نہیں ہے، اور وہ آزاد کا مالک ہونا ہے، مجازا محمول واجب کرے گا تو وہ قرینہ ہے، پھر اگر اس کے خلاف کوئی قرینہ قائم ہوجائے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا، پس اگر عورت سے زنا کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا میں نے اپنے آپ کو تیرے ہبہ کیا آدمی نے کہا میں نے قبول کیا تو یہ نکاح نہیں ہوگا، جیسے فقیہ ابو اللیث کا قول میں نے اپنے آپ کو تیرے لئے یعنی تیری خدمت کے لئے ہبہ کیا اس نے کہا میں نے قبول کیا، مگر جبکہ اس سے نکاح کا ارادہ ہو، ایساہی البحر الرائق میں ہے۔

(کتاب النکاح، مطلب التزوج بارسال کتاب، جلد ٤، صفحہ ٩١، مطبوعہ المکتبۃ الاشرفیہ بدیوبند)۔


صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: 

الفاظ نکاح دو قسم ہیں: ایک صریح یہ صرف دو لفظ ہیں۔ نکاح وتزوج، باقی کنایہ ہیں۔ الفاظ کنایہ میں ان لفظوں سے نکاح ہوسکتا ہے جن سے خود شئ ملک میں آجاتی ہے، مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرا مگر ان میں قرینہ کی ضرورت ہے کہ گواہ اسے نکاح سمجھیں۔

(بہار شریعت، الفاظ نکاح، حصہ ٧، صفحہ ٨/٩، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔


لہذا صورت مذکورہ میں عورت نے نکاح کے ارادے سے گواہوں کی موجودگی میں مرد سے کہا میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کیا اور مرد نے اس کے جواب میں کہا میں نے قبول کیا تو نکاح ہوگیا۔ واللّٰه تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔



کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند) 

١٨ صفر المظفر ١٤٤٥۔    بروز منگل

5 ستمبر 2023







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney