شراکت میں کاروبار کرنا کیسا ؟

 سوال نمبر 2450


السلام علیکم ورحمۃالله وبرکاته 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے  بارے میں کہ زید و عمر ایک طرح کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں تمام رقم زید لگائے گا اسکے علاوہ زید کسی طرح ذاتی طور پر شامل نہیں ہوگا اور عمر مزدوری وتمام کام انجام دیگا۔ اب زید و عمر دونوں کے درمیان منافع میں برابری کا حصہ رکھنا یا کسی فرد کا کم یا کسی فرد کا زیادہ حصہ رکھنا کیسا۔ رہنمائی فرمائیں۔ 


المستفتی : طلحہ خان ممبئی




                 {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

الجواب:تجارت (کاروبار) میں ایک کا پیسہ اور دوسرے کی محنت ہو اور منافع میں دونوں برابر، اس کو ”فقہ کی اصطلاح میں” مُضارَبَت“کہتے ہیں۔ مُضارَبَت میں نفع کا تناسب برابر رکھنا کہ دونوں کو نصف نصف (آدھا آدھا) ملے جائز ہے اس میں حرج نہیں۔البتہ نفع کی جو بھی مقدار مقرر و متعین کی جائے وہ فیصد مثلاً نصف، ثلث، ربع (یعنی آدھا، تہائی، چوتھائی وغیرہ ) کے اعتبار سے ہو،رقم وغیرہ متعین نہ کی جائے۔نیز نقصان میں بھی دونوں فریق شریک ہوں. 

بہت سے لوگ نفع کی ایک مقدار متعین کردیتے ہیں کہ مجھے منافع میں سے اتنا دینا ہوگا مثلاً دس ہزار روپے وغیرہ۔خواہ نفع ہویا نقصان اس طرح کرنے سے مُضارَبَت فاسد ہوجاتی ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ لَا مُعَيَّنًا فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً أَوْ مِائَةً أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ."

ترجمہ: اور یہ کہ نفع کی مقدار معلوم ہو، پس اگر مجہول ہے تو شرکۃ فاسد ہوجائے گی، اور یہ کہ نفع ایسا جز ہو جو تمام میں پھیلا ہو معین نہ ہو، پھر اگر ان دونوں نے متعین کیا دس، سو، یا اس کی مثل تو شرکۃ فاسد ہوجائے گی ایساہی بدائع الصنائع میں ہے۔

(كتاب الشركة، الباب الأوّل في بيان أنواع الشركة، جلد 2، صفحہ 302، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)۔ 


 صورت مسئولہ میں جو مذکور ہے کہ زید کا رقم لگانا اور عمر کا محنت و مزدوری کرنا اور یہ طے کرنا کہ منافع میں دونوں متساوی (برابر) ہوں گے یا ترتیشت کے اعتبار سے ثلث ربع وغیرہ (Fix) فکس و متعین کرنا اس طرح کا کاروبار کرنا صحیح و درست ہے۔

یعنی ایک کی رقم ہو اور دوسرے کی محنت ہو تو بلاشک و شبہ جائز ہے خواہ نفع نصف ہو یا ثلث ہو یا ربع اس شرط پر کہ رقم دینے والا نفع و نقصان دونوں میں مشترک ہوں۔ واللّٰه تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔


کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)

٢٧ صفر المظفر ١٤٤٥ھ        بروز جمعرات۔

14 ستمبر 2023ء۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney