عشا کے فرض کے بعد سنت پڑھے بغیر وتر پڑھنا

 سوال نمبر 2458


الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ عشاء کے فرض کے بعد دو رکعت سنت نہیں پڑھی اور وتر کی نماز پڑھی تو کیا وتر کی نماز ہوگئی؟


(سائل:مير عبد الهادی نوری، ولے پارلے، ممبئی)


باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں وتر کی نماز ہوگئی کیونکہ عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد پڑھی گئی ہے۔

   چنانچہ فقیہ النفس علامہ حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی٥٩٢ھ لکھتے ہیں:وقت الوتر من حین یصلی العشاء الی طلوع الفجر وان أوتر قبل العشاء متعمدًا لا یجوز وان صلی العشاء علی غیر وضوء ثم استیقظ فی السحر فأوتر فلما فرغ من الوتر ذکر انہ صلی العشاء علی غیر وضوء فانہ یعید العشاء ولا یعید الوتر فی قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ ملخصًا

(فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ٧٤/١)

یعنی، وتر کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے طلوعِ فجر تک رہتا ہے، تو اگر کسی نے عشاء کے فرض پڑھنے سے پہلے قصدًا وتر کی نماز پڑھی تو ہوگی ہی نہیں اور اگر عشاء بے وضو پڑھی پھر سحری میں بیدار ہوا اور وتر پڑھی بعد کو معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز بے وضو پڑھی تھی تو امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک صرف عشاء کا اعادہ کرے۔

   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:اگرچہ عشا و وتر کا وقت ایک ہے، مگر باہم ان میں ترتیب فرض ہے، کہ عشا سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں، البتہ بھول کر اگر وتر پہلے پڑھ لیے یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشا کی نماز بے وضو پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ تو وتر ہوگئے۔

(بہار شریعت، نماز کے وقتوں کا بیان، حصہ سوم، ٤٥٥/١)

   اور وتر سے پہلے کی دو رکعت سنتِ مؤکدہ چونکہ نہیں پڑھی ہے لہٰذا یہ اب بھی وقت کے اندر پڑھنی ہوگی۔


واللہ اعلم بالصواب


کتبہ:محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی


بدھ، ١٠/ ربیع الآخر، ١٤٤٥ھ ۔ ٢٥/ اکتوبر، ٢٠٢٣ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney