مسجد کی دیوار پر نقش و نگار و قرآنی آیات لکھنا

 سوال نمبر 2486


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكاتُهُ‎ 

کیا فرماتے ہیں علماء کرام  مسٸلہ ذیل کے بارے میں کہ 

(١) مسجد کے در و دیوار پر قرآنی آیات کا لکھنا کیسا ہے؟

(٢)اور مسجد میں سمت قبلہ دیوار میں نقش و نگار والی کوئی شئ منقش کرانا یا ڈیژائن والی ٹائلس لگوانا کیسا ہے ؟

(٣) اور ایک طرف یا اللہ اور دوسری طرف یا محمد لکھنا عند الشرع کیسا ہے ؟

سائل : سیف الله شمسی جموٸ بہار




وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب :


(١) مسجد در و دیوار پر ، کلر پینٹ ، چونا ، پلاستر ،وغیرہ سے آیات قرآنیہ کا لکھنا اچھا نہیں اس لئے کہ ، کلر پینٹ ،مٹی، چونا ، وغیرہ سے جو کچھ لکھا ہوا ہے زمین پر گرے گا اور پیر کے نیچے گرے گا جس سے بے ادبی ہوگی ، ہاں اگر آیات قرآنیہ کو کسی پتّھر پہ کندہ کَرا لیں اور اتنی اوپر لگائیں کہ حالت نماز میں مصلی کی نظر کے سامنے نہ ہو تو لگا سکتے ہیں ،


چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے ،

وَلَيْسَ بِمُسْتَحْسَنٍ كِتَابَةُ الْقُرْآنِ عَلَى الْمَحَارِيبِ وَالْجُدَرَانِ لِمَا يُخَافُ مِنْ سُقُوطِ الْكِتَابَةِ وَأَنْ تُوطَأَ وَفِي جَمْعِ النَّسَفِيِّ

یعنی مسجد کی محرابوں اور دیواروں پر قرآن لکھنا بہتر نہیں اس واسطے کہ خوف(اندیشہ) ہے کہ کبھی وہ کتابت(لکھا ہوا) گِرے اور پاؤں کے نیچے آئے (یہ) جمع نسفی میں لکھا ہے ،

( ج ١ ص ١٢١ بیروت لبنان)


بہار شریعت میں ہے ،

مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر قرآن لکھنا اچھا نہیں کہ اندیشہ ہے وہاں  سے گرے اور پاؤں  کے نیچے پڑے، اسی طرح مکان کی دیواروں  پر کہ علّت مشترک ہے۔ 

( ج ١ ص ٦٤٦ مکتبہ دعوت اسلامی)


(٢) کوئی بھی نقش و نگار یا ٹائلس وغیرہ مسجد کی دیوار  سمت قبلہ میں جہاں عام نمازی کی نظر پہنچے اس حد تک کوئی بھی ایسی چیز نہ لگائیں جس سے نمازیوں کے اذہان و قلوب منتشر ہوں ، ہاں اگر اتنی اونچائی پر ہو کہ نمازی کے سر اٹھا کر دیکھنے سے نظر آئے تو یہ نمازی کا قصور ہے ، اسے آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا مکروہ ہے،


فتاوی رضویہ میں ہے ،

بے شک دیوار قبلہ میں عام مصلیوں کے موضع نظر تک کوئی ایسی چیز نہ چاہئے جس سے دل بٹے اور ہو تو کپڑے سے چھپادے


(فتاوی رضویہ ج ٨ ص ١٢١ تا ١٢٢ ادبی دنیا دہلی)

بہار شریعت میں ہے ،

مسجد کی دیوار میں  نقش و نگار اور سونے کا پانی پھیرنا منع نہیں  جب کہ بہ نیت تعظیم مسجد ہو، مگر دیوارِ قبلہ میں  نقش و نگار مکروہ ہے،

( ج ١ ص ٦٤٦ مکتبہ دعوت اسلامی)


 (٣) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نام مبارک کو دیوار پر لکھنا یا نِدا کرنا ناجائز و حرام ہے ،


اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 

لاَ تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضَاء ،

(کنزالایمان سورة النور، آیت ۶۳ )

رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

یعنی ان کی آواز پر اپنی آواز بلند کر کے یا ان کے ناموں سے ان کو ندا کر کے ، تُو یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ یوں کہو یا نبی اللہ ، یا رسول اللہ جیسے انہیں کلمات کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کیا


مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں علماء بیان فرماتےہیں ۔۔۔ اگر حضور کے نام کے ساتھ فریاد کرنے میں آئی ہو مثلاً وہ دعا توجہ جو حضور نے ایک نابینا کو تلقین فرمائی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نام سے پکار کر وہ بینا ہو گیا تو اس کو یا رسول اللہ اور اس جیسے کلمات سے بدل دے اس لئے کہ حضور ﷺ کو حضور ﷺ کے نام کریم سے بلانا حرام ہے۔

اقول : ہمارے فقہاء نے اس بات پر نص فرمائی ہے کہ بیٹے کو یہ منع ہے کہ اپنے ماں باپ کو نام لیکر پکارے اور عورت کو شوہر کا نام لیکر پکارنا منع ہے تو رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں ،

المعتقدالمنتقد

( ٢٨٩ مکتبہ جامعۃ الرضا بریلی شریف)


فتاوی رضویہ میں ہے ،

کہ رسول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو،اب ایک دوسرے میں باپ اور مولا اور بادشاہ سب آگئے،اسی لئے علماء فرماتے ہیں نام پاک لے کر ندا کرنا حرام ہے،اگر روایت میں مثلاً یا محمد آیا ہو تو اس کی جگہ بھی یا رسول ﷲ کہے 

(ج ١٥ ص ١٧٢ ادبی دنیا دہلی)


واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ 

محمد معراج رضوی واحدی سنبھل







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney