ماموں زاد بہن کی بیٹی سے نکاح کا شرعی حکم

 سوال نمبر 2520


کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کیا ماموں زاد بہن کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے؟جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی!

سائل : مولانا محمد طیفور رضا امجدی امینی جامنگر حال ملاوی افریقہ 




بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایةالحق والصواب 

مسئلئہ مسؤلہ میں ماموں زاد بہن کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز  ہے جبکہ کوئی مانع شرعی یعنی حرمت مصاہرت یا رضاعت نہ ہو کیوں کہ ماموں زاد بہن کی بیٹی ان عورتوں میں سے نہیں ہے جن سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے قرآن مجید میں ان عورتوں کو صراحتًا بیان کر دیا گیا ہے  چنانچہ اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے  

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ  اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘ وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(٢٣)

ترجمہ : تم پر حرام کردی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ (کے رشتے) سے تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں (جو اُن بیویوں سے ہوں ) جن سے تم ہم بستری کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان (بیویوں ) سے ہم بستری نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو اکٹھا کرنا (حرام ہے۔) البتہ جو پہلے گزر گیا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( قرآن مجید  پارہ 4 سورةالنساء آیت 23 

اور ان کے علاوہ جن عورتوں سے نکاح حلال ہے اس تفصیلی بیان کے بعد اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے  وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ

اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں ( قرآن مجید پارہ 5 سورةالنساء آیت 24 ) 

اور حضرت علامہ ابن عابدین المعروف بہ علامہ شامی رقم فرماتے ہیں : "تحل بنات العمات والاعمام والاخوال"  یعنی پھوپھی,چچا,خالہ,ماموں کی بیٹیوں سے نکاح حلال ہے ( ردالمحتار مع الدرالمختار کتاب النکاح ج ٤ ص ١٠٧ ) 

نیز فقہاۓکرام و علماۓذوی الحترام اس بارے میں وضاحت فرماتے ہیں :" کہ چچا,تایا,پھوپھی,خالہ,اور ماموں کی اولاد اور پھر آگے ان کی اولاد سے نکاح حلال ہے شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں 

مندرجہ بالا آیات مبارکہ اور فقہاۓکرام کی تصریحات و توضیحات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالٰی نے جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام فرمایا ہے ان کا واضح طور پر ذکر فرمادیا کہ یہ یہ عورتیں ہیں اور ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اور ماموں زاد بہن کی لڑکی ان عورتوں میں سے نہیں ہے 

لھٰذا اگر کوئی مانع شرعی یعنی حرمت مصاہرت یا رضاعت وغیرہ کوئی سبب نہ ہو تو ماموں زاد بہن کی بیٹی سے نکاح کرنا بالکل جائز اور حلال ہے شرعًا اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ تصریحات بالا سے واضح و لائح ہے 


واللہ تعالٰی ﷻ اعلم و رسولہ الاعلٰی ﷺ اعلم بالصواب

کتبہ

 سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی درالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف انڈیا )
21 رمضان المبارک 1445ھ بمطابق 1اپریل 2024ء بروز پیر







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney