شوہر اول کے بچی کا شوہر ثانی کے بچے سے نکاح

 سوال نمبر 2524


اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ 

الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسلہ ھذا کے بارے میں کہ اگر کسی مطلقہ عورت نے شادی کی ساتھ میں ایک بچی لائی  جِس سے شادی کی اُسکے ایک بچہ ہے اب اِس صورت میں مطلقہ عورت کی بچی سے شوہر کے بچے کی شادی کرنا کیسا ہے؟

بحوالہ جواب دینے کی زحمت اٹھائے بڑی مہربانی ہوگی۔

المستفتی: عبد الستار صدیقی راجستھان



وَ عَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

(بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ)

الجواب بعون الملک الوھاب: صورت مذکورہ سوتیلی ماں کی ہے اور سوتیلی ماں کی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ حرمت رضاعت وغیرہ نہ ہو کیونکہ سوتیلی ماں کی لڑکی جو پہلے شوہر سے اور لڑکا جو اس عورت کے دوسرے شوہر سے ہے ان دونوں کا نہ تو باپ ایک ہے اور نہ ماں ایک ہے۔ لہذا دونوں کا باہم نکاح کرنا جائز ہے درمختارمیں ہے  اَمَّا بِنْتُ زَوْجَۃِ اَبِیْہِ اَوْ اِبْنِہٖ فَحَلَالٌ (یعنی اپنے باپ اور اپنے بیٹے کی زوجہ کی بیٹی سے نکاح حلال ہے) (الدرالمختار مع ردالمحتار، جلد ۴، صفحہ ١١٢، مطبوعہ‌ کوئٹہ)۔

  اور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ” ایک شخص کا نکاح ایک بیوہ عورت سے ہوا تھا، اس عورت کا ایک لڑکا اگلے مرد سے ہے اوراب جس مرد سے نکاح کیا، اس مرد کی پہلی عورت سے ایک لڑکی ہے اب دونوں لڑکے اور لڑکی کا باہم نکاح کرناچاہتے ہیں تو یہ درست ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ان دونوں کا باہم نکاح ہوسکتاہے کہ دونوں کا نہ ایک باپ ہے نہ ایک ماں ۔قال اللہ تعالی: وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم “ (کتاب النکاح، فتاوی امجدیہ، جلددوم، صفحہ ٥٥، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)۔

وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ 


کتبہ

وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔

خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان (الھند)۔

٢٢ رمضان المبارک ١٤٤٥ھجری۔ 2 اپریل 2024عیسوی۔ بروز منگل۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney