معتکف کا صحن مسجد میں ٹھنڈک کے لیئے غسل کرنا

 سوال نمبر 2531


الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ معتکف مسجد کے صحن میں ٹھنڈک کے لئے غسل کرسکتا ہے کسی بڑے ٹب وغیرہ میں جس سے مسجد میں قطرے نہ گریں؟ جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔

(سائل:قربان علی،انڈیا)


باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب

 کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس طرح فرض غسل میں ممکن ہو تو وہ بھی مسجد ہی میں کرنا ہوگا۔ مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ مگر مسجد کے اندر غسل کرنے میں یہ احتیاط لازمی کی جائے کہ مستعمل پانی کی کوئی چھینٹ مسجد کے فرش پر نہ گرے اور نہ ہی بے پردگی ہو۔

چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی۱۰۸۸ھ لکھتے ہیں: (وحرم عليه الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر۔ (الدر المختار مع شرحہ رد المحتار،کتاب الصوم،باب الاعتکاف،۲/۴۴۴۔۴۴۵) یعنی،معتکف کو مسجد سے باہر نکلنا حرام ہے مگر انسان کی طبعی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے جیسے پیشاب، پاخانہ اور غسل کرنے اگر اسے احتلام ہوجائے اور مسجد میں اس کے لئے غسل کرنا ممکن نہ ہو اسی طرح’’نہر الفائق‘‘(النھر الفائق شرح کنز الدقائق،کتاب الصوم،باب فی الاعتکاف،تحت قولہ:طبیعیۃ کالبول والغائط،۲/۴۶) میں ہے۔

اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں: (قوله ولا يمكنه إلخ) فلو أمكنه من غير أن يتلوث المسجد فلا بأس به بدائع أي بأن كان فيه بركة ماء أو موضع معد للطهارة أو اغتسل في إناء بحيث لا يصيب المسجد الماء المستعمل، قال في البدائع: فإن كان بحيث يتلوث بالماء المستعمل يمنع منه لأن تنظيف المسجد واجب اهـ والتقييد بعدم الإمكان يفيد أنه لو أمكن كما قلنا فيخرج أنه يفسد۔ (رد المحتار،کتاب الصوم،باب الاعتکاف،۲/۴۴۵)

یعنی،اگر مسجد کو آلودہ کئے بغیر غسل کرنا ممکن ہو تو غسل میں کوئی حرج نہیں ’’بدائع‘‘(بدائع الصنائع،کتاب الاعتکاف،فصل وأما رکن الاعتکاف ومحظوراتہ وما یفسدہ وما لا یفسد،۲/۲۸۴)یعنی اس کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں پانی کا تالاب ہو یا ایسی جگہ جو طہارت کے لئے مختص ہو یا وہ برتن میں اس طرح غسل کرے کہ مستعمل پانی مسجد تک نہ پہنچے۔ ’’بدائع‘‘(بدائع الصنائع،کتاب الاعتکاف،فصل وأما رکن الاعتکاف ومحظوراتہ وما یفسدہ وما لا یفسد،۲/۲۸۴)میں کہا:اگر غسل ایسی صورت میں ہو کہ مستعمل پانی سے مسجد آلودہ ہوتی ہو تو غسل سے منع کیا جائے گا کیونکہ مسجد کی صفائی ستھرائی کا اہتمام واجب ہے۔ مسجد میں غسل ممکن نہ ہونے کی قید لگانا اس امر کا فائدہ دیتا ہے کہ اگر مسجد میں غسل کرنا ممکن ہو جس طرح ہم نے کہا ہے پھر وہ مسجد سے باہر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں۔ ایک حاجت طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہو سکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں۔ دوم حاجت شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا، جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں۔ (بہارشریعت،اعتکاف کابیان،۱/۵/۱۰۲۳۔۱۰۲۴)

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

ہفتہ،۲۶/رمضان،۱۴۴۵ھ۔۶/اپریل،۲۰۲۴م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney