سوال نمبر 2539
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓکرام و مفتیان ذوی الاحترام اس مسئلے میں کہ زید کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا اس کی بیوی ہندہ بولی آپ اس لڑکی سے کیوں بات کرتے ہیں ایک انڈرائڈ فون تھا اور ایک بٹن والا غصہ میں آکر دونوں کو پٹک کر پھوڑ ڈالا تب دونوں میں جھگڑا ہونے لگا اور جھگڑا ہونے کے درمیان زید نے اپنی بیوی کو کہ دیا "جاؤ تم کو جواب دے دیے" اسی طرح زید نے مکمل پانچ سے سات مرتبہ یہ الفاظ بولے اب اس کے لیے کیا حکم ہے جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں المستفتی: محمد امجد رضا قادری پھول تھوڑا کھگڑیا بہار
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ ۔۔
الجواب بعون الملک الوھاب
مذکورہ جملہ "جاؤ تم کو جواب دے دیے" اگر وہاں کے عرف و محاورہ میں طلاق صریح کے طور پر بولا جاتا ہے اور بیوی کی طرف نسبت کرنے میں اس سے طلاق ہی سمجھی جاتی ہے۔تو صورت مسؤلہ میں اگر واقعی زید نے یہ جملہ "جاؤ تم کو جواب دے دیے" اپنی بیوی ہندہ کو پانچ سے سات مرتبہ بول دیا تو اس طرح بولنے سے اس کی بیوی ہندہ پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہو گئیں۔اور وہ زید کے نکاح سے نکل کر اس پر حرام ہوگئ۔۔جیسا کہ ردالمحتار میں حضرت علامہ شامی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "الصریح ما غلب فی العرف استعمالہ فی الطلاق بحیث لایستعمل عرفا الا فیہ من ای لغۃ کانت” (ردالمحتار ج ٤ ص٤٦٤ ) یعنی : "صریح وہ ہے جسے اکثر عام طور پر طلاق کے معنی میں بولا جاتا ہو اگرچہ وہ کسی بھی زبان کا لفظ ہو" اور حضرت علامہ امام ابوبکر بن علی بن محمد الحدّاد الزبیدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "فالصریح: ما ظھرالمراد بہ ظھورًا بینًا مثلًا انت طالق انت حرة..لان ھٰذہ الالفاظ تستعمل فی الطلاق ولا تستعمل فی غیرہ"
یعنی: صریح وہ ہے جس سے طلاق مراد ہونا واضح طور پر ظاہر ہو مثلًا تو طلاق یافتہ ہے تو آزاد ہے اس لیے کہ یہ الفاظ طلاق میں استعمال ہوتے ہیں اور چیز میں استعمال نہیں ہوتے ( الجوھرةالنیرة ج ٢ ص ١٦٥ )
اور سیدی سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں "اگر فارغ خطی دینا وہاں کے محاورہ میں طلاق کے الفاظ صریحہ سے سمجھا جاتا ہے جیسا کہ یہاں کی بعض اقوام میں ہے کہ عورت کی نسبت اس کے کہنے سے طلاق ہی مفہوم ہوتی ہے تو دو طلاق رجعی ہوئیں (فتاوی رضویہ جدید، ج١٢، ص٥٦٩)
اور بہار شریعت میں صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "صریح وہ جس سے طلاق مراد ہونا ظاہر ہو اکثر طلاق میں اس کا استعمال ہو اگرچہ وہ کسی زبان کالفظ ہو ( بہار شریعت ج ٢ ح ٨ ص ١١٥ )
لھذا جہاں کے عرف و محاورہ میں مذکورہ الفاظ طلاق کے لیے صریح ٹھہرتے ہوں وہاں طلاق واقع ہو جاۓگی اور جہاں کے عرف میں یہ صریح نہ ہوں وہاں واقع نہیں ہوگی
واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ و سلم اعلم بالصواب
کتبہ : سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی
( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )
بتاریخ ٧ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ١٧ اپریل ٢٠٢٤ء بروز بدھ
0 تبصرے