فقیر کو دے کر صدقہ فطر کی نیت بعد میں کی تو

 سوال نمبر 2542


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسںٔلے میں کہ زید نے دوران سفر ایک فقیر کو کچھ پیسے دیے گھر پہنچ کر زید کو خیال آتا ہے کہ میں نے صدقہ فطر ادا نہیں کیا ہے پھر زید نیت کرتا ہے کی جو پیسے میں نے فقیر کو دیے ہے وہ میرا صدقئہ فطر ہے تو کیا اس طرح نیت کر لینے سے صدقئہ فطر ادا ہو جائےگا؟ 

المستفتی : محمد احسان رضا گونڈہ یوپی


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب

صدقئہ فطر کی ادائگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی شرعی فقیر کو صدقئہ فطر کی رقم دیتے وقت یا اس رقم کو علٰیحدہ کرتے وقت نیت موجود ہو۔۔ اگر بلا نیت کسی فقیر کو رقم دے دی اور بعد میں صدقئہ فطر کی نیت کرلی تو اس طرح نیت کرنا شرعًا معتبر نہیں اور نہ اس طرح صدقئہ فطر ادا ہوتا ہے البتہ اگر وہ رقم جو زید نے فقیر کو دی ہے تاحال اس فقیر کی ملک میں بعینہ موجود ہو تو نیت کرلینے سے صدقئہ فطر ادا ہو جاۓگا جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے "واذا دفع الى الفقير بلا نية ثم نواه عن الزكاة فان كان المال قائما فی يدالفقير اجزاه، والا فلا كذا فی معراج الدراية والزاهدی والبحر الرائق والعينیّ وشرح الهداية"( فتاوی عالمگیری ج ١ ص ١٧١ ) 

الاشباہ والنظائر میں حضرت علامہ شیخ زین الدین بن ابراہیم بن محمد المشہور بہ علامہ ابن نجیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "اما الزکاة فلا یصح اداؤھا الا بالنیة"( الاشباہ والنظائر ص ١٩ )

اور در مختار میں ہے "(وشرط صحۃ أدائہا مقارنۃ لہ) أي للأداء ولو کانت المقارنۃ (حکمًا) کما لو دفع بلانیۃ ثم نوی والمال قائم في ید الفقیر"

( در مختار ج ٣ ١٨٧ ) 

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے 

"إذا دفع المزکي المال إلی الفقیر ولم ینو شیئًا، ثم حضرتہ النیۃ عن الزکاۃ ینظر إن کان المال قائمًا في ید الفقیر صار عن الزکاۃ وإن تلف لا"

( فتاوی تاتارخانیہ ج ٣ ص ١٩٧ )

اور بہار شریعت میں حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ رقم فرماتے ہیں "دیتے وقت نیت نہیں کی تھی بعد کو کی تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے یعنی اس کی ملک میں ہے تو یہ نیت کافی ہے ورنہ نہیں( بہار شریعت ج ١ ح ٥ ص ١٢ )

 صورت مسؤلہ میں زید نے دوران سفر  فقیر کو کچھ رقم دے دی اور گھر پہنچ کر اس دی ہوئی رقم سے صدقئہ فطر کی نیت کرتا ہے تو اس طرح نیت کرنا شرعًا درست نہیں! کیونکہ اب دی ہوئی رقم فقیر کے پاس بعینہ موجود ہونا معلوم نہیں ، لھذا زید پر لازم ہے کہ وہ اب الگ سے صدقئہ فطر ادا کرے 


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ : سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی ( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند ) بتاریخ ٥ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ١٥ اپریل ٢٠٢٤ء بروز پیر







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney