اگر سات سال کا بچہ روزہ رکھ کر توڑ دے تو

 سوال نمبر 2544


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کیا سات آٹھ سال کے بچے پر روزہ رکھنا فرض ہے اگر روزہ رکھ کر توڑ دے توکیا اس پر کفارہ لازم ہوگا؟

 المستفتی : سید محمد زین سہروردی داہود شریف 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔

الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مستفسرہ میں سات آٹھ سال کا بچہ نابالغ ہوتا ہے اور نابالغ پر روزہ رکھنا فرض نہیں اگر نابالغ بچہ روزہ رکھ کر توڑ دے تو نہ اس کو گناہ ہوتا ہے اور نہ اس کے والدین کو اور نہ اس بچے پر کفارہ  لازم ہوتا ہے اگرچہ بغیر عذر کے روزہ توڑ دے۔جیسا کہ فتوی رضویہ میں سیدی سرکار اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں"نابالغ پر تو قلم شرع جاری ہی نہیں وہ اگر بے عذر بھی افطار کرے اسے گنہگار نہ کہیں گے" "لقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم رفع القلم عن ثلٰثة الی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم و عن الصبی حتی یحتلم" ترجمہ :  کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ان میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے بچے کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچا (فتاوی رضویہ ج ١٠ ص ٣٤٥ رضا فاؤنڈیشن لاہور شریف)

حضرت علامہ محمد بن علی علاءالدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں"الصبي إذا أفسد صومه لا يقضي؛ لأنه يلحقه في ذلك مشقة بخلاف الصلاة فإنه يؤمر بالإعادة؛ لأنه لا يلحقه مشقة" یعنی :جب بچہ روزہ توڑ دے تو اس روزے کی قضا اس پر لازم نہیں کیوں کہ قضا کرنے میں اس کو دشواری ہوگی بر خلاف نماز کے اسے دوبارہ ادا کرنے کا حکم دیا جاۓگا کیوں کہ اس سے بچے کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔( در مختار ج ٢ ص ٤٠٩ )

لیکن یہ بات یاد رہے کہ سات سال کا بچہ یا بچی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں اور روزہ رکھنے پر انہیں کوئی ضرر یعنی نقصان نہ ہو تو ان کے ولی ( والدین,سرپرست ) پر لازم ہے کہ انہیں روزہ رکھوائیں اور جب بچہ یا بچی دس سال کے ہو جائیں تو ان کے ولی پر واجب ہے کہ روزہ رکھوانے پر سختی کریں اور اگر نہ رکھیں تو مناسب سزا ( punishment ) دیں جس طرح سات سال کے بچے کو نماز کا حکم دینا ضروری ہے.اور دس سال کا ہو جانے پر نماز کے معاملے میں سختی کرے اور نماز نہ پڑھنے پر اسے سزا دینا واجب ہے روزے اور نماز دونوں کا حکم ایک ہی ہے چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: "مرو اولادکم بالصلوة وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر " یعنی : جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا کہو اور دس سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز چھوڑنے پر سزا دو

( مسند احمد و سنن ابوداؤد )

حضرت علامہ محمد بن علی علاءالدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں"ويؤمر الصبي بالصوم إذا أطاقه، ويضرب عليه ابن عشر كالصلاة في الأصح''.یعنی: اور جب بچہ  تندرست ہو تو اسے روزے کا حکم دیا جاۓگا اور دس سال کا ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تو نہ رکھنے پر سزا دی جاۓگی۔صحیح قول کے مطابق روزے کا حکم نماز کی طرح ہے ( در مختار ج ٢ ص ٤٠٩ )اگر روزہ رکھنے سے بچے کو جسمانی تکلیف ہو تو روزہ نہ رکھوائیں جیسا فتاوی عالمگیری میں ہے "قال الرازی یؤمر الصبی اذا طاقہ" امام رازی (سہروردی) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب بچہ توانا ہو جاۓ تو اسے نماز روزے کا حکم دیا جاۓ "وھٰذا اذا لم یضرالصوم بدنہ فان اضر لایؤمر بہ" یہ اس وقت ہے جب روزہ جسمانی تکلیف کا سبب نہ بن رہا ہو اگر بن رہا ہو تو پھر اسے نہ کہا جاۓ یعنی روزہ نہ رکھوایا جاۓ ۔۔۔۔لھذا سات آٹھ سال کے بچے پر روزہ رکھنا فرض نہیں۔اور رکھ کر توڑ دے تو اس پر قضا بھی لازم نہیں لیکن اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہو اور رکھنے پر نقصان نہ ہو تو روزہ رکھنے کا حکم دیا جاۓ تاکہ عادت بنے اور جب دس سال کا ہو اور روزہ رکھ سکتا ہو تو اس کے ولی پر واجب ہے کہ روزہ رکھوانے پر سختی کرے اگر نہ رکھے تو مناسب سزا دے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث مبارک اور فقہی جزئیات کی روشنی میں واضح و لائح ہے  


واللہ و رسولہ اعلم 


کتبہ

 سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

بتاریخ ١٢ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٢ اپریل  ٢٠٢٤ء بروز پیر







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney