پہلی بیوی کے اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا

 سوال نمبر 2545

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو بغیر خبر کئے دوسری شادی کرلی ہے اور جب یہ خبر ہند کو معلوم ہوا کہ زید نےدوسری شادی کرلی ہے تو زید اور ہندہ میں جھگڑے ہونے لگے ہندہ نے کہا کہ یا تو میں آپ کے نکاح میں رہوں گی یا پھر وہ رہے گی یعنی دوسری بیوی۔ اسی بات کو لے کر زید نے اپنے ہوش وحواس میں رہ کر اور نام لے کر طلاق طلاق طلاق کا ریکارڈنگ کرکے اپنی دوسری بیوی کے پرسنل موبائل فون پر بھیج دیا ہے تو اب کیا یہ طلاق مانا جائے گا یا نہیں؟مع حوالہ کے قرآن وسنّت کی روشنی میں جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

نوٹ:جو ریکارڈ سائل نے ہمیں بھیجی ہے اس میں شوہر کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم تم کو طلاق دے رہے ہیں،شبانہ جبیں(دوسری بیوی کانام ہے) ہم تم کو طلاق دے رہے ہیں،طلاق طلاق طلاق۔ اور سائل سے وضاحت لینے پر معلوم ہوا کہ نکاح ہونے کے چھ مہینے گزرنے کے بعد یہ معاملہ پیش آیا ہے اور زید نکاح کے بعد دوسری بیوی سے ہمبستری کرچکا ہے اور زید طلاق دینے کا اقرار بھی کررہا ہے۔

المستفتی  محمد دلاور حسین،محبت پور،انڈیا

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب:

 مذہب اسلام میں مرد کو ایک وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ ان سب کے درمیان عدل کرسکتا ہو ورنہ ایک وقت میں ایک ہی بیوی پر اکتفاء ضروری ہے۔

   چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فَانْكِحُوْا مَا طَابَ  لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً۔ (النسآء:۴/۳)

ترجمہ،تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔ (کنز الایمان)

   اس میں پہلی بیوی کی رضامندی یا عدم رضامندی کو کوئی دخل نہیں ہے لہٰذا مرد کو دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں۔ ہاں بہتر یہ ہے کہ پہلی بیوی کو اعتماد میں لے کر دوسری شادی کرے تاکہ مستقبل میں اس بات کو لے کر آئے دن فتنہ فساد برپا نہ ہو۔ اور اگر کسی ملک میں یہ قانون ہو کہ دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے تو پھر وہاں کے مقامی لوگ پہلی بیوی سے لازمی اجازت لیں تاکہ بعد میں قانونی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ البتہ اگر کوئی مرد پہلی بیوی کو بتائے بغیر چھپ کر دوسری شادی کرلے تو نکاح ہوجائے گا کیونکہ پہلی بیوی یا قانون کی اجازت ہونا صحت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔

   لہٰذا صورت مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل زید کی دوسری بیوی پر طلاق مغلّظہ واقع ہوگئی۔ اس میں تفصیل یہ ہےکہ شوہر نے جب پہلی بار کہا کہ ہم تم کو طلاق دے رہے ہیں تو اس سے ایک طلاق واقع ہوگئی کیونکہ حال کے صیغے سے طلاق ہوجاتی ہے۔ چنانچہ علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی متوفی۸۶۱ھ لکھتے ہیں اور اُن سے علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی۹۷۰ھ نقل کرتے ہیں اور اُن سے علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ نقل کرتے ہیں: وَلَا يَقَع بِأُطَلِّقُك إلَّا إذَا غَلَبَ فِي الْحَال۔ [واللفظ للأوّل] (فتح القدیر،کتاب الطلاق،باب إیقاع الطلاق،۴/۷) (البحر الرائق،کتاب الطلاق،باب ألفاظ الطلاق،تحت قولہ:الصريح كأنت طالق ومطلقة وطلقتك،۳/۲۷۱) (رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،تحت قولہ:وما بمعناھا من الصریح،۳/۲۴۸)

یعنی،لفظ ’’أطلّقک‘‘ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے مگر جب حال میں غالب ہو پھر جب اسی سے متصل شوہر نے طلاق طلاق طلاق کہا تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی۱۰۸۸ھ لکھتے ہیں: كرر لفظ الطلاق وقع الكل. (الدر المختار،کتاب الطلاق،باب طلاق غیر المدخول بھا،ص۲۱۳)

یعنی لفظ طلاق کو مکرّر کیا تو سب واقع ہوجائیں گی۔

اور شوہر بیک وقت تین طلاقیں دینے کے سبب گنہگار ہوا جس کے لئے توبہ کرے اور اب بغیر حلالہ شرعیہ ان دونوں کا نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ۔ (البقرۃ،۲/۲۳۰)

ترجمہ،پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔

   اور حلالہ کی صورت یہ ہے کہ پہلے شوہر کی عدّت ختم ہونے کے بعد یہ عورت دوسرے سے نکاح کرے اور وہ ہمبستری کے بعد طلاق دے یا مرجائے پھر عدّت گزرے تو اس کا نکاح پہلے شوہر کے ساتھ ہوسکے گا۔

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:۔

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

اتوار،۵/شوال،۱۴۴۵ھ۔۱۳/اپریل،۲۰۲۴م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney