مکان کو گروی لے کر مارکیٹ سے کم کرائے میں رہنا

 سوال نمبر 2551


السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کیا کسی مکان کو گروی لیکر اس مکان میں مارکیٹ ریٹ سے کم کرایہ طے کرکے رہنا جائز ہے یا نہیں عندالشرع اس کا کیا حکم ہے؟جواب عنایت فرمائیں 

المستفتی: سید محمد عظیم الدین بابا قادری خانقاہ قادریہ بروڈہ گجرات 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 

سب سے پہلے یہ مسئلہ واضح رہے کہ قرض میں دی گئ رقم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مقروض سے اس کا مکان یا دکان یا سونا,چاندی وغیرہ بطور رہن لیا جاتا ہے اور یہ جائز ہے لیکن اس سے کسی بھی طرح کا انتفاع ( فائدہ اٹھانا ) مثلًا اس مکان میں رہائش اختیار کرنا وغیرہ ناجائز و حرام ہے اس میں قرض دیکر نفع حاصل کرنے والی سودی صورت پائی جاتی ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں اور کسی مکان کو گروی لیکر عرف میں رائج کرایہ سے کم کرایہ طے کرکے سکونت اختیار کرنا بھی جائز نہیں یہ بھی ایک طرح سے قرض پر نفع حاصل کرنے والی صورت ہے اور یہ معروف بات ہے کہ مقروض اس لیے کرایہ کم کرتا ہے کہ اس کو مقرض (قرض دہندہ) نے قرض دیا ہے اور مقرض بھی اس لیے کرایہ کم کرواتا ہے کہ اس نے قرض دیا ہوتا ہے اس میں بھی قرض دیکر نفع حاصل کرنا پایا گیا جو معروف کالمشروط کی وجہ سے حرام و گناہ ہے سود کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تبارک و  تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ ترجمۂ کنزالایمان:’’اوراللہ تعالیٰ نےحلال کیابیع کواورحرام کیا سود کو۔‘‘(پارہ٣،سورةالبقرة ،آیت ٢٧٥ )

اور حدیث مبارک میں حضور نبئ اکرم صلیﷲ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: "کل قرض جرمنفعۃ فھو ربو،رواہ الحارث بن اسامة فی مسندہ عن امیرالمومنین علی کرمﷲ تعالٰی وجھه۔”ہر وہ قرض جو نفع کھینچ لائے وہ سود ہے اس کو حضرت حارث بن اسامہ نے اپنی مسند میں امیرالمومنین حضرت علی کرمﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے روایت کیا

( کنز العمال ج٦ص٩٩)

درمختار اور ردالمحتار میں ہے:”کل قرض جرنفعا حرام وفی الرد:ای کان مشروطا“ ہر وہ قرض جونفع لے آئے وہ حرام ہے،اور ردالمحتار میں ہے: یعنی جب وہ نفع مشروط ہو۔ (درمختار و ردالمحتار ج٧ ص٣٩٥)

حضرت علامہ شامی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :"وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵ ص۳۱۱) یعنی: اکثر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ادائگی کرتے وقت وہ صرف فائدہ چاہتے ہیں اور اگر یہ ( فائدہ ) نہ ہوتا تو اسے دراہم نہ دیتے اور یہ بمنزلئہ شرط ہے اس لیے کہ معروف مشروط کی طرح ہوتا ہے جو منع کو متعین کرتا ہے! مذکروہ بالا توضیحات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ رقم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مکان وغیرہ بطور رہن ( گروی ) تو لیا جا سکتا ہے لیکن اسے استعمال کرنا یا ایسے کسی بھی گروی مکان میں عرف کے مطابق کم کرایہ طے کرکے سکونت اختیار کرنا سودی صورت پائی جانے کے سبب نا جائز و حرام ہے لھذا اس جیسے مکان کا کرایہ مارکیٹ عرف کے مطابق جو بنتا ہو یا جو اس کے قریب قریب ہو تو کرایہ طے کرکے اس میں رہنا جائز ہوگا۔مگر  اس صورت میں پہلا معاملہ یعنی عقد رہن ختم ہوجائے گا اور اس پر اجارہ یعنی کرایہ داری کے اَحکام جای ہوں گے


واللہ تعالیٰ جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم اعلم بالصواب 


کتبہ

سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

 بتاریخ ١٥ شوال الکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٥ اپریل ٢٠٢٤ بروز جمعرات







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney