حاجی اگر پندرہ دن رکے تو منی میں قصر پڑھے گا ؟

 سوال نمبر 2569


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ "حاجی مکہ شریف میں پندرہ دن رکے تو کیا منٰی میں نماز قصر پڑھےگا یا مکمل"؟ جواب عنایت فرمائیے

 المستفتی  محمد اعزاز کھتری داہود شریف 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 

واضح رہے کہ منی,عرفات,مزدلفہ حدود مکةالمکرمہ سے باہر ہیں اور یہ سب الگ الگ مستقل مقامات ہیں لھذا حج کے لیے جانے والا شخص اگر منی جانے سے پہلے مکةالمکرمہ میں مسلسل پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے اور پھر مکةالمکرمہ سے نکل کر منی,عرفات,مزدلفہ جاۓگا تو اس صورت میں وہ شخص مقیم ہوگا اور مکةالمکرمہ,منی,عرفات,مزدلفہ میں بھی مکمل نماز ادا کرےگا۔اور اگر پندرہ دن کےاندر ہی منی,عرفات,مزدلفہ کی طرف روانہ ہوگا تو اب وہ مقیم نہ ہوگا اور نماز میں قصر کرےگا! 

کیوں کہ اقامت کی نیت کیلیے ضروری یے کہ کسی ایک جگہ مسلسل پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو۔جیساکہ فتاوی عالمگیری میں  ہے: ”ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط(ومنھا ) اتحاد الموضع والمدة“ اقامت کی نیت کے درست ہونے کے لئے پانچ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے(اور ان میں سے ایک  یہ بھی ہے)کہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت کرے،نیز پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے ۔(فتاوی عالمگیری کتاب الصلاۃ,ج١ص١٣٩ دار الفکر بیروت)

حضرت امام علامہ شامی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’إنہ إذا نوی الإقا مۃ بمکۃ شہرًا ومن نیتہ أن یخرج إلی عرفات ومنی قبل أن یمکث بمکۃ خمسۃ عشر یومًا لا یصیر مقیمًا؛ لأنہ لا یکون ناویًا لإقامۃ مستقلۃ فلا تعتبر‘‘( منحۃ الخالق علی البحر ج٢ ص۱۴۳)

یعنی:جب وہ مکہ میں ایک مہینہ ٹھہرنے کا ارادہ کرے اور اس کی نیت پندرہ دن مکہ میں رکنے سے پہلے ہی عرفات اور منیٰ جانے کی ہے تو وہ مقیم نہ ہوگا۔کیوں کہ اس نے ایک جگہ مستقل اقامت( یعنی پندرہ دن ٹھہرنے )کی نیت نہیں کی لھذا یہ غیر معتبرہے !

بدائع الصنائع میں ہے: ”ذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح“ کتاب المناسک میں ذکر کیا کہ حاجی جب ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں  مکہ میں داخل ہو اور پندرہ دن اقامت کی نیت کرے یا  پھرذوالحجہ کے پہلے عشرے سے پہلے داخل ہو اور یوم الترویہ سے پہلے تک پندرہ سے کم دن بچیں اور وہ اقامت کی نیت کرے،تو یہ نیتِ اقامت درست نہیں کیونکہ اسے مناسکِ حج کے  لئے عرفات کی طرف نکلنا ہوگا لہٰذا  پورے پندرہ دن اقامت کی نیت نہیں ہو سکے گی یوں اقامت درست نہیں ہوگی ۔(بدائع الصنائع، ج١،ص٩٨،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بہار شریعت میں حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "دو جگہ  پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں جیسے مکہ و منٰی تومقیم نہ ہوا, اور ایک دوسرے کی تابع ہو جیسے شہر اور اس کی فنا تو مقیم ہوگیا۔“(بہار  شریعت ،ج١،ح ٤ ص ٧٤٥)

مزید فرماتے ہیں: ”جس نے اقامت کی نیت کی مگر اس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہرے گا تو نیت صحیح نہیں، مثلاً حج کرنے گیا اور شروع ذی الحجہ میں پندرہ دن مکۂ معظمہ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو یہ نیت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ ہے تو عرفات و منیٰ کو ضرور جائے گا پھر اتنے دنوں مکۂ معظمہ میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے اور منیٰ سے واپس ہو کر نیت کرے تو صحیح ہے“(بہار شریعت ج١ح ٤ص٧٤٧)

مذکروہ بالا فقہی جزئیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ حج کے لیے جانے والا شخص اگر مکةالمکرمہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے تو منی,عرفات اور مزدلفہ میں نمازیں پوری پڑھےگا اور اگر مکةالمکرمہ میں پندرہ دن سے کم رکنے کی نیت ہے یا نیت تو  پندرہ دن رکنے کی ہے لیکن حالت بتاتی ہے کہ وہ پندرہ دن نہیں رک سکےگا اور اسے پندرہ دن کے اندر ہی منی وغیرہ ضرور جانا پڑےگا تو اب ایسی صورت میں نمازیں قصر پڑھےگا! 


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ اعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

بتاریخ ١٦ذی قعدہ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٥مئ٢٠٢٤ء بروز ہفتہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney