بیوہ عورت کی عدت کا حکم

 سوال نمبر 2571


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ"بیوہ عورت کی عدت کتنی ہے, بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت کیا حکم ہوگا,اور وہ عدت کہاں گزارےگی براہ کرم جواب عنایت فرمائیے؟

 المستفتی محمد ارشاد سبزی فروش داہود شریف


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 

واضح رہے کہ شوہر کی وفات کے بعد عورت کی عدت کامل چار مہینے دس ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ(پ ٢ سورةالبقرۃ:٢٣٤) 

ترجمہ: اور تم میں سے جو مر جائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔

اور شوہر کی وفات کے بعد عورت پر عدت گزارنا مطلقاً لازم ہےاور موت کی عدت کے لیے فقط نکاحِ صحیح ہونا کافی ہے عورت چاہے جوان ہو یا بوڑھی ہو یا نابالغہ ہو،حائضہ ہو یا نہ ہو یونہی عورت کی رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:"عدة الحرة في الوفاة أربعة أشهر وعشرة أيام سواء كانت مدخولاً بها أو لا۔۔حاضت في هذه المدة أو لم تحض ولم يظهر حبلها، كذا في فتح القدير. هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح، كذا في السراج الوهاج.المعتبر عشر ليال وعشرة أيام عند الجمهور، كذا في معراج الدراية" یعنی: موت میں آزاد عورت کی عدت چار مہینے دس دن ہے، خواہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ۔اس مدت میں اسے حیض آیا ہو یا نہ آیا ہو اور وہ غیر حاملہ ہو اور اسی طرح فتح القدیر میں ہے یہ عدت صرف نکاح صحیح میں واجب ہے، اور یہی بات السراج الوہاج میں ہے جو جمہور کے اعتبار سے دس راتیں اور دس دن ہیں اور ایسا ہی معراج الداریہ میں ہے۔( فتاوی عالمگیری کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج ١ ص ٥٢٩)

 بیوہ عورت کی عدت ٤ ماہ ١٠ دن ہے۔بشرطکہ جب شوہر کی وفات چاند کی پہلی تاریخ کو ہوئی ہو، ورنہ عورت عدت کے ١٣٠ دن پورے کرےگی جیساکہ فتاوٰی شامی میں حضرت امام علامہ شامی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "إذا اتفق عدة الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين".

یعنی: جب عدت طلاق اور وفات کے آغاز کا اتفاق چاند کی پہلی کو ہو تو قمری مہینوں کا اعتبار کیا جائے گا۔اگرچہ تعداد میں ایام کم ہوجائیں اور اگر مہینے کے درمیان میں ہو, تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک ایام کا اعتبار کیا جائے گا اس صورت میں عورت طلاق میں نوے دن بیٹھے گی اور وفات میں ایک سو تیس دن ۔‘‘(کتاب الطلاق،باب العدة، ج٣ ص ٥٠٩) اور ایسا ہی البحرالرائق جلد٤صفحہ٢٢٣میں ہے! 

 اور اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچہ جن دینا ہے۔ چاہے طلاق کی عدت ہو یا وفات کی۔حاملہ عورت کی عدت کے لیے کوئی خاص مدت مقرر نہیں ہے,لھٰذا طلاق واقع ہونے یا شوہر کی وفات کے کچھ دن بلکہ کچھ لمحوں کے بعد بھی بچے کی پیدائش ہو جائےتو حاملہ عورت کی عدت پوری ہو جائے گی۔جیساکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: "وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ" ترجمہ کنزالایمان: اورحمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپناحمل جن لیں۔‘‘(پارہ ٢٨ سورۃالطلاق,آیت٤)

عورت عدت کہاں گزارےگی تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ عورت چاہے بیوہ ہو یا طلاق یافتہ عدت اپنے شوہر کے گھر رہ  کر ہی گزارےگی جیساکہ حدیث مبارک میں ہے: کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہمشیرہ حضرت فریعہ بنت مالک  کے شوہر کو ان کے غلاموں نے قتل کرڈالا تھا،وہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ مجھے میکے میں عدت گزارنے کی اجازت دی جائے کہ میرے شوہر نے کوئی اپنا مکان نہیں چھوڑا اورنہ خرچ چھوڑا۔اجازت دیدی پھر بُلاکر فرمایا:”امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ قالت فاعتددت فیہ اربعۃ اشھروعشرا“ یعنی:اُسی گھر میں رہو جس میں رہتی ہو،جب تک عدت پوری نہ ہو۔حضرت فریعہ فرماتی ہیں : پھر میں نے اسی گھر میں چارماہ دس دن عدت گزاری!

(جامع ترمذی,ابواب الطلاق ،باب ماجاء این تعتدالمتوفی عنھا زوجہ ج ١، ص٣٥٩)

 الاختیارلتعلیل المختار میں شیخ الاسلام حضرت علامہ ابوالفضل مجدالدین عبداللہ بن محمود بن مودود بن محمود بلدجی الموصلی الحنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’وتعتد في البيت الذي كانت تسكنه حال وقوع الفرقة إلا أن ينهدم أو تخرج منه أو لا تقدر على أجرته فتنتقل“یعنی: عورت عدت اُس گھر میں گزارےگی جس میں وقوعِ فرقت کے وقت رہ رہی تھی,البتہ اگر وہ گھر منہدم ہوجائے یا اُسے گھر سے نکال دیا جائے یا وہ کرائے کا مکان ہے مگر یہ اُس کی اجرت دینے پر قادر نہیں تو اس صورت میں اس گھر سے نکل سکتی ہے۔(الاختیار ج٢،ص٢٢٧ )

صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’موت یا فُرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت (رہائش) تھی اُسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑ کر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگر بضرورت آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیرچارہ نہ ہو۔‘‘ (بہارشریعت ج٢ ح٨ ص٢٢٥ مکتبۃ المدینہ)

مذکورہ بالا احکام قرآن و حدیث  اور فقہی جزئیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بیوہ عورت کی عدت کامل ٤ مہینے اور ١٠ دن ہے,اگر بیوہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچہ جننا ہے اگرچہ شوہر کی وفات کے کچھ لمحوں بعد ہی بچہ پیدا ہوجاۓ,عدت پوری ہوجاۓگی,اور وہ عدت اپنے شوہر کے گھر رہ کر ہی گزارےگی بغیر عذر شرعی گھر چھوڑنا یا بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں! 


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

 بتاریخ١٩ذی قعدہ ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٨مئی٢٠٢٤ءبروز سہ شنبہ( منگل )







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney