قرض کے عوض گروی لینا

 سوال نمبر 2577


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ "زید بکر سے قرض لینا چاہتا ہے اور بکر زید کا مکان قرض کے عوض گروی لیکر اسے آگے کرایہ پر دینا چاہتا ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا زید و بکر کا ایسا معاملہ طے کرنا جائز ہے یا نہیں؟" جواب عنایت فرمائیے

المستفتی: عبدالرزاق اشرفی داہود 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 

بیان کردہ صورت میں ایسا کرنا ناجائز و حرام اور سخت گناہ ہے ! اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے!

اگر زید بکر سے قرض لیکر اس کے بدلے اپنا مکان بکر کو گروی دیتا ہے تو اس صورت میں یہ مکان مرہون (گروی ) اور مالک مکان زید راہن اور بکر مرتہن ہے یعنی زید مکان گروی دینے والا اور بکر مکان گروی لینے والا ہوا,اور بکر نے جو رقم زید کو بطور قرض دی ہے اس رقم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے بکر زید سے اس کا مکان وغیرہ بطور رہن لے تو سکتا ہے,لیکن بکر کا اس مکان میں رہنا,یا اسے کرایہ پر کسی کو دینا ناجائز و حرام ہے کیوں کہ اس میں قرض دیکر نفع حاصل کرنے والی صورت پائی جاتی ہے اورقرض پر نفع حاصل کرنا سود ہے اور سود ناجائز اور حرام قعطی ہے!

چنانچہ "الجامع الصغیر" اور "در منثور" میں ہے: ’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا “ ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع لے کر آئے وہ سود  ہے! ( الجامع الصغیر مع فیض القدیر ج٥ص٢٦ مطبوعہ بیروت,در منثور ج ٥ ص٣٥٥ ) 

اور اعلاءالسنن میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: "جاء رجل إلی ابن مسعود رضي اللّٰه عنه فقال: إن رجلا رهنني فرسًا فرکبتہا، قال: ما أصبت من ظهرها فهو ربا"

یعنی: حضرت ابن سیرین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا اور کہا: ایک آدمی نے میرے پاس گھوڑا رہن ( گروی ) رکھا تو میں نے اس پر سوار کی,انہوں نے فرمایا: جو کچھ تو نے اس کی پیٹھ سے نفع اٹھایا تو وہ سود ہے,یعنی رہن رکھے ہوۓ گھوڑے پر سواری کرنا سود ہے ! (إعلاء السنن باب الانتفاع بالمرهون، رقم الحدیث: ٥٨١٨ ٦٤/١٨ ) 

درمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"لا یجوز الانتفاع به مطلقا لا باستخدام ولا سكنى ولا لبس ولا اجارة ولا عادة كان من مرتهن او راهن" یعنی: اس (رہن) سے فائدہ اٹھانا ہرگز جائز نہیں،نہ اسے استعمال کرنا نہ,رہنا, نہ پہننا نہ کرایہ پر دینا اور نہ بطور عرف و عادت دینا خواہ مرتہن کی جانب سے ہو یا راہن کی  


بہار شریعت میں حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "مرہون چیز سے کسی قسم کا نفع اُٹھانا جائز نہیں ہے۔ یہ اجازت رہن میں  شرط ہے یعنی قرض ہی اس طرح دیا ہے کہ وہ اپنی چیز اس کے پاس رہن رکھے اور یہ اس سے نفع اٹھائے جیسا کہ عموماً اس زمانہ میں مکان یا زمین اسی طور پر رکھتے ہیں  یہ ناجائز اور سود ہے۔ اصل حکم یہی ہے جس کا ذکر ہوا مگر آج کل عام حالت یہ ہے کہ روپیہ قرض دے کر اپنے پاس چیز اسی مقصد سے رہن رکھتے ہیں کہ نفع اُٹھائیں اور یہ اس درجہ معروف و مشہور ہے کہ مشروط  کی حد میں داخل ہے لہٰذا اس سے بچنا ہی چاہیے! ( بہار شریعت ج۳ ص۷۰۲ )   


درج بالا احادیث مبارکہ اور فقہی جزئیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ رقم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مکان وغیرہ بطور رہن ( گروی ) تو لیا جا سکتا ہے لیکن اسے استعمال کرنا یا ایسے کسی بھی گروی مکان کو آگے کرایہ پر دینا سودی صورت پائی جانے کے سبب نا جائز و حرام ہے! 

لھذ بکر کا قرض کے بدلے زید کا مکان گروی لیکر اسے آگے کرایہ پر دینا ناجائز و حرام ہے بکر پر لازم ہے کہ اس سے مکمل اجتناب کرے! 


واللہ تعالٰی و رسولہ اعلم باالصواب 


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

 بتاریخ ٢٤ ذی قعدہ ١٤٤٥ھ بطابق   ٢جون  ٢٠٢٤ء بروز اتوار







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney