سوال نمبر 2579
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ کیا بہو اپنے سسر کے ساتھ حج کو جا سکتی ہے؟براہ کرم جواب عنایت فرمائیے
المستفتی: محمد امتیاز داہود شریف
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوۓ حتی الامکان عورت کو اپنے شوہر یا قابل اطمینان کسی محرم نسبی کے ساتھ سفر حج کرنا چاہیے!
لیکن اگر بہو اپنے سسر کے ساتھ حج کو جانا چاہے تو جا سکتی ہے,کیوں کہ بہو سسر کے حقیقی بیٹے کی بیوی ہے لھذا سسر بہو کے لیے محرم ہے اور محرم وہ ہے جس سے ہمیشہ نکاح حرام ہو,لھذا اگر کسی فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے اطمینان و امان ہو تو بہو اپنے سسر کے ساتھ محرم ہونے کی وجہ سے حج کو جا سکتی ہے!
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے : و حلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ ۙ۔ (پ٤سورۃالنساء٢٣)
ترجمئہ کنزالایمان: اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں( حرام ہے )
اور علامہ امام شامی قادری علیہ الرحمہ فتاوی شامی میں ارشاد فرماتے ہیں: "والمحرم من لا یجوز لہ مناکحتہا علی التابید بقرابۃ أو رضاع أو صہریۃ" یعنی: محرم وہ ہے جس سے ہمیشہ کیلیے نکاح حرام ہو خواہ نسب سے ہو یا دودھ کے رشتہ سے ہو یا سسرالی رشتہ سے ! (ردالمحتار ج٢ ص ٤٦٤)
مراةالمناجیح میں حضرت علامہ مفتی احمدیار خاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "محرم عورت کا وہ عزیز ہے جس سے نسبی یا رضاعت یا صہریت کی وجہ سے ہمیشہ نکاح حرام ہو لھذا رضاعی بھائی سسر و داماد وغیرہ کے ساتھ سفر جائز ہے!" ( مراةالمناجیح ج ٤ ص ٩٠ نعیمی کتب خانہ گجرات )
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بہو کے لیے سسر محرم ہے لھذا بہو اپنے سسر کے ساتھ حج کو جا سکتی ہے! البتہ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ ہو یا سسر جوان ہو تو اپنے سسر کے ساتھ اکیلی سفر نہ کرے اور نہ خلوت کرے کیوں کہ سسر کے ساتھ تنہا سفر کرنا,خلوت میں رہنا باعث فتنہ بن سکتا ہے اس لیے احتراز کرنا چاہیے
واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی
( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )
بتاریخ٢٦ذی قعدہ١٤٤٥ھ بمطابق٤جون٢٠٢٤ء بروز منگل
0 تبصرے