سوال نمبر 2582
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
اگر بکرے کے سامنے والے دو دانت ٹوٹ گئے ہوں تو کیا اس کی قربانی جائزہے یا نہیں؟ بکرا ایک سال کا ہے۔
بحوالہ جواب عنایت فرماکر عند اللہ مأجور ہوں۔
المستفتی:عبدالستار صدیقی قیصر پورا بالوترا راجستھان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب: کسی جانور کے دانت ٹوٹ جائے اور وہ جانور چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
حضرت علامہ شیخ نظام الدین اور علماء ہند کی جماعت نے تحریر فرمایا ہے:
و أما الهتماء و هي التي لا أسنان لها فإن كانت ترعى و تعتلف جازت و إلا لا كذا في البدائع وهو الصحيح كذا في محيط السرخسي اه......
(ترجمہ: اور لیکن ہتماء یعنی ایسا جانور جس کے دانت نہ ہو اور وہ آسانی سے چر سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے ایسا بدائع الصنائع میں ہے اور یہی صحیح ہے جیساکہ محیط سرخسی میں ہے)۔
الفتاوی الہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل اقامۃ الواجب، جلد ۵، صفحہ ٢٩٨، مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)۔
"فتاوی قاضی خان میں ہے:
’’ان بقی لھا من الاسنان قدر ما تعتلف جاز والا فلا ‘‘ ترجمہ:اگر اتنے دانت ہوں ،جن سے چارہ کھا سکے،تو اُس کی قربانی جائز ہے،ورنہ جائز نہیں۔
(فتاوی قاضی خان،جلد ٣، صفحہ ٢٤۰، مطبوعہ کراچی)۔
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
جس کے دانت نہ ہوں یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے۔
اور حاشیہ ٤ میں ہے: یعنی ایسا جانور جو گھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، ہاں البتہ اگر گھاس کھانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
(بہار شریعت، جلد ۳، حصہ ١٥، صفحہ ٣٤٠، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔
والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب
کتبه: محمد وکیل صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
٥ ذی الحجہ ١٤٤٥ھجری۔ ١٢ جون ٢٠٢٤عیسوی۔ بروز بدھ۔
0 تبصرے