آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

بلڈ بینک قائم کرنا کیسا

 سوال نمبر 2614


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں۔

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے شہر بہیڑی میں ایک گروپ بنام جی ڈبلو ایس ، ہے جو عوام الناس کی خدمات انجام دیتا ہے اسکے ممبران کا یہ ارادہ ہے کہ ایک بلڈ بینک قائم کیا جائے جس میں تمام ممبران حضرات اپنا اپنا بلڈ خون نکلوا کر بلڈ بینک میں جمع کرادیں ، اور جس بینک میں یہ بلڈ جمع کرائینگے وہاں کے ڈاکٹر لوگ انہیں  کارڈ دیں گے ، اور پھر اس کے بعد جو بھی ضرورتمند گروپ کے کسی بھی ممبر کے پاس آئےگا اسے یہ کارڈ دیں دینگے پھر وہ ڈاکٹر کو یہ کارڈ دکھا کر اپنے مریض کے لئے آسانی سے خون حاصل کرسکتا ہے ، 

اس کا مقصد یہ ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اچانک کوئی حادثہ ہوا یا بعض اوقات ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے جس میں ایمرجنسی خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے ، اور ایمرجنسی کی صورت میں خون ملنا مشکل ہو جاتا ہے، اور خون ملنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے جس سے مریض مر جاتا ہے جیسا کہ عموما  وقت ضرورت خون نہ مل پانے کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے ، تو اس لئے بلڈ بینک قائم کرنا اور پہلے سے ہی اس میں خون نکلواکر بلڈ بینک میں جمع کرنا تاکہ وقت ضرورت اور ایمرجنسی حالات میں مریض کو خون چڑھایا جا سکے تاکہ اس کی زندگی سلامت رہے ، 

تو ایسا کرنا از روئے شرع کیسا ہے ، اس مسئلہ میں عاطف و ناظم دونوں کا اختلاف ہو گیا ، 

مذکورہ صورت میں عاطف صاحب کا یہ کہنا ہے مذکورہ صورت یعنی بلڈ بینک قائم کرنا ، نیز پہلے سے ہی خون نکلواکر جمع کرنا ناجائز و گناہ ہے، اسکی تفصیل یہ ہے کہ انسانی جسم اور اس کے تمام اعضاء کا مالک اللہ رب العزت ہے ، لہذا جسم کے کسی جز ، حصہ کو دوسرے کو دینا از روئے شرع ناجائز و گناہ ہے کیونکہ جس چیز کے ہم خود ہی  مالک نہیں ہیں اس چیز کا ہم دوسروں کو مالک نہیں بنا سکتے ، جب تک کہ شرعی ضرورت متحقق نہ ہو ، لہذا انسانی اعضاء کے ساتھ خون بھی جسم کا ایک عضو ہے ، اسے بھی  شرعی ضرورت متحقق ہونے سے پہلے دینا ناجائز و گناہ ہے ، لہذا بیان کردہ صورت میں پہلےسے ہی خون نکلوانا اور بلڈ بینک میں جمع کرانا پایا جا رہا ہے جو کہ ناجائز و گناہ ہے، کیون کہ ضرورت متحقق ہونے سے پہلے اپنے جز کو نکلواکر جمع کرایا جا رہا ہے ،

مذکورہ صورت میں ناظم صاحب کا یہ کہنا ہے کہ بیان کردہ سائل کی صورت میں بلڈ بینک قائم کرنا اور پہلے سے ہی خون نکلوا کر بلڈ بینک میں جمع کرانا جائز و درست ہے ،

وجہ اس کی یہ ہے کہ بے شک  ضرورت شدیدہ متحقق ہونے سے قبل کسی کو خون دینا ناجائز و گناہ ہے ، لیکن جو صورت حال سائل نے بیان کی کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک ایکسیڈنٹ ہوگیا اور کئی سارے مریض کو اچانک بلڈ کی ضرورت پڑ گئی اور بلڈ بینک میں خون موجود نہیں ہے، اور خون کو لانے میں کافی وقت لگ گیا تو اس صورت خون نہ ملنے سے بہت سارے مریض مر جاتے ہیں ، لہذا ایسے ہنگامی حالات ، ایکسیڈنٹ یا حادثہ کا شکار ہونے والے مریضوں کے لئے بلڈ بینک قائم کرنا اور پہلے سے ہی خون نکلوا کر جمع کرنا تاکہ وقت ضرورت خون چڑھا کر مریض کی زندگی بچائی جا سے تو یہ جائز و درست ہے گویا کہ یہ بھی ضرورت شدیدہ ہی کی ایک صورت ہے ، 

لہذا مفتیان کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں عاطف و ناظم دونوں میں از روئے شرع کس کا قول صحیح و درست ہے ، 

نیز جو بھی حکم شرع ہو مدلل و مفصل بیان کیا جائے ؟

السائل  سید افضل علی ۔

ساکن  محلہ ٹانڈہ منڈیا والی گلی  متصل نینی تال روڈ بہیڑی ضلع بریلی ۔




وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

اللھم ہدایۃ الحق والصواب الجواب بعون الملک الوھاب ۔

شریعت مطہرہ کی روشنی ناظم کا قول صحیح و درست ہے  بلڈبینک قائم کرناعوام الناس کی ضرورت اور عمومی حاجت کے درجے میں ہے اس لئےبلڈ بینک قائم کرنا اوراس میں پہلے سے ہی خون نکلواکر جمع کروانا جائز ہے۔تاکہ ایمرجنسی حالات یا اچانک ہونے والے حادثات میں مریضوں کی جان کی حفاظت ہو سکے ۔ اور مریضوں کی جان بچانے کے لئے کسی طرح کی کوئی پریشانی و مشقت ، اور حرج لاحق نہ ہو ،

اگر چہ بظاہر خون پہلے سے دینے کے لیے ضرورت و حاجت متحقق نہیں ہے جیسا کہ سوال میں عاطف نے بیان کیا لیکن حقیقت یہ ہے ہنگامی حالات اور ایمرجنسی ضرورت کے تحت خون کا نہ ملنا ، اور اسکے تلاش کرنے کے لئے حرج و دشواری اور مشقت کا سامنا ہونا ، اور بوقت ضرورت خون نہ ملنے کی وجہ سے مریضوں کا مرجانا یہ تمام امور ہی پہلے سے خون نکلوانے اور بلڈ بینک میں جمع کرانے کے جواز کے لئے کافی ہیں ، یعنی یہ تمام امور  کا پایا جانا شرعاً خون جمع کرنے کے لیے عذر ہے ، لہذا بلڈ بینک قائم کرنا اور پہلے سے ہی خون نکلواکر جمع کروانا جائز و درست ہے تاکہ وقت ضرورت گروپ کے ممبر سے رابطہ کرکے کارڈ حاصل کرکے ڈاکٹر سے آسانی سے خون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نیز یہ ایک مستحسن و مستحب عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ثواب کی امید بھی ہے ۔


البتہ یہ یاد رہے کہ مذکورہ صورت میں ، گروپ کے ممبران خون نکلوا کر جس بینک میں اپنا خون جمع کرواتے ہوں اس  بلڈ بینک میں وقت ضرورت مریضوں اورحاجتمندوں کو خون بلا عوض دیا جاتا ہو ، قیمت وصول نہ کی جاتی ہو ، اگر خون  مریضوں کو قیمت میں فروخت کیا جاتا ہو، تو ایسے بلڈ بینک میں خون جمع کرنا جائز نہیں ہو گا، ہاں اگر  بلڈ بینک والےخون کو اپنی مشینوں میں صاف کرتے ہیں، سیلز (cells) کو الگ کرتے ہیں، تو  اگر اس کی مناسب قیمت خون صاف کرنے کے عوض لیتے ہیں تو اس کی گنجائش ہوگی۔ 

قرآن و حدیث ، نیز اقوال فقہاء وعبارات علماء کی تصریحات سے ثابت ہے کہ وقت ضرورت ناجائز چیزیں بھی جائز ہوجاتی ہیں ، اس پر دلائل ملاحظہ فرمائیں

اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے  فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم، (پارہ 6، سورہ مائدہ ، آیت نمبر 3 )

 ترجمہ۔ تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

مفتی قاسم عطاری اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہو۔} اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کردیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز مُیَسَّر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے بقدرِ ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہوجاتی ہے جس سے خطرۂ جان جاتا رہے (ماخوذ از تفسیرِ صراط الجنان ))

 اصول فقہ کا قاعدہ ہے ۔۔ الضرورات تبیح المحظورات  ضرورتیں یعنی مجبوریاں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں۔

1

امام عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان الکلیوبی فرماتے ہیں ۔

"وفي شرح المنظومة الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حرامًا۔"

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، جلد اول کتاب الرضاع ، 552 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ ۔ شرح منظومہ میں ہے کہ مدت کے بعد بچہ کو دودھ پلانا حرام ہے کیونکہ یہ یعنی دودھ پلانا آدمی کا جز ہے ، اور صحیح مذہب کے مطابق بغیر ضرورت جز سے فائدہ لینا حرام ہے ، البتہ بعض علماء نے اس جز کے ذریعہ سے علاج کرانا جائز قرار دیا ہے کیونکہ شرعی ضرورت کے وقت جز سے فائدہ لینا حرام نہیں ہے ۔

2

ملا نظام الدین ہندی فرماتے ہیں: الانتفاع باجزاء الادمی لم یجز قیل للنجاسۃ وقیل الکرامۃ ھو الصحیح يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه (الفتاوي الهندية، جلد پنجم، كتا ب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي، ص434, 435, مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان))

ترجمہ ۔ آدمی کے جسم کے اجزاء سے فائدہ لینا جائز نہیں ہے ، ایک قول یہ ہے کہ نجاست کی وجہ سے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ کرامت و عزت کی وجہ سے یہی صحیح قعل ہے ،

مریض کے لئے علاج کی غرض سے خون ، پیشاب کا پینا اور مردار کھانا جائز و درست ہے جبکہ اس کو کسی مسلمان ڈاکٹر نے بتایا ہو کہ بیماری سے شفا انہیں چیزوں میں ہے، اور وہ ان ناپاک چیزوں کے قائم مقام کوئی جائز چیز نہ پائے ۔

3

 فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے ۔

اگر خون کی سخت کمی یا فساد کی وجہ سے ہلاک ہو جانے کا ظن غالب ہو تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت خون چڑھانا جائز ہے جبکہ خون چڑھانے پر جان بچ جانے کا غالب گمان ہو اور ایسے وقت میں خون دینا بھی جائز ہے (فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم کتاب الحظر والاباحۃ  ص 40)

مزید اس کی تفصیل مجلس شرعی کے فیصلے جلد اول فیصلہ نمبر ص 192 سے 196  تک دیکھی جا سکتی ہے =

مذکورہ بالا دلائل و براہین سے ثابت ہو گیا کہ ضرورت و حاجت کے تحقق کے وقت ناجائز و حرام امور بھی جائز و درست ہو جاتے ہیں ،  

لہذا سائل کی جانب سے پوچھی گئی صورت میں کہ جی ، ڈبلو ایس کے گروپ کے ممبران کا بلڈ بینک قائم کرنا اور پھر مریضوں ، بیماروں کے علاج کے لئے اپنا اپنا خون نکلواکر بلڈ بینک میں ہنگامی حالات اور ایمرجنسی اور اچانک ہونے والے حادثات کے لیے جمع کرکے ہسپتال میں ڈاکٹر و اطباء کے پاس جمع و محفوظ کروانا تاکہ وقت ضرورت مریض کی جان یا عضو کی بآسانی حفاظت کی جا سکے ، تو اس طرح بلڈ بینک میں خون جمع کروانا از روئے شرع جائز و درست ہے ۔

واللہ اعلم باالصواب 

کتبہ ۔ العبد الضعیف الحقیر المحتاج الی اللہ القوی القدیر محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی

ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ بیری والی کوئیاں متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney