آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

مکان بنانے کے لیئے جمع شدہ رقم پر زکوۃ

 سوال نمبر 2617

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر امامِ مسجد کے پاس بقدر نصاب رقم ہے لیکن اس نے وہ رقم مکان بنانے کے لئے جمع کی ہے تو آیا اب اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟

زید کا کہنا ہے کہ مکان حاجت اصلیہ میں آتا ہے اور اس شخص کے پاس خود کا مکان نہیں ہے اور جو رقم اس کے پاس ہے وہ حاجت اصلیہ کو حاصل کرنے کے لیے جمع کی گئی ہے لہذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی تو کیا زید کی یہ بات درست ہے؟

بینوا بالدلیل و توجروا بالجلیل۔


المستفتی : شمس الحق گجرات



                   (بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم)

الجواب بعون الملک الوھاب: بقدر نصاب رقم جمع ہو اگرچہ بغرض تکمیل حاجت اصلیہ ہو لیکن جب تک خرچ نہ ہو جائے اس پر وجوب زکوۃ ہوجائے گی۔

لہذا زید کا کہنا کہ مکان حاجت اصلیہ میں سے ہے تو جس کے پاس مکان نہیں ہے اور اس نے مکان بنانے کی غرض سے پیسے جمع کیے ان پر زکوٰۃ نہیں ہے یہ غلط ہے کیونکہ نصاب کی مقدار رقم جب تک حاجت اصلیہ میں خرچ نہ ہوجائے تب تک ان پر زکوۃ واجب ہے۔

علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

"اذا امسکہ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال الحول وقد بقی معہ منہ نصاب فانہ یزکیٰ ذلک الباقی، وان کان  قصدہ الانفاق منہ ایضاً فی المستقبل لعدم استحقاق صرفہ الی حوائجہ الاصلیۃ وقت حولان الحول، بخلاف ما اذا حال الحول وھو مستحق الصرف الیھا

ترجمہ: یعنی جب مال اس نیت سے روکے رکھا کہ جو حاجت ہوگی اس میں خرچ کروں گا پھر اس پر سال گزر گیا اور اس کے پاس اس میں سے نصاب باقی ہے تو اس باقی کی زکوٰۃ دے گا اگرچہ اس کو مستقبل میں خرچ کرنے کی نیت ہو، کیونکہ سال گزرنے کے وقت حاجتِ اصلیہ میں صرف کرنے کا اس کو استحقاق حاصل نہیں ہے، برخلاف اس کے کہ جب سال پورا ہونے کے وقت اس مال کو حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو۔ 

(در المختار مع الرد المحتار، کتاب الزکاۃ، جلد ۳، صفحہ ١٧٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت-لبنان)۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

"حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کے روپے رکھے ہیں تو سال میں جو کچھ خرچ کیا کیا اور جو باقی رہے اگر بقدرِ نصاب ہیں تو ان کی زکوٰۃ واجب ہے، اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آیندہ حاجتِ اصلیہ میں صرف ہوں گے اور اگر سالِ تمام کے وقت حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔“ 

(بہارِ شریعت ، جلد ١، ص ٨٨١،  مطبوعہ دعوت اسلامی)۔

والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب 



کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند۔

خادم التدریس: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند۔

١ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ۔ ٥ اکتوبر ٢٠٢٤ء۔ بروز سنیچر




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney