آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

العلماء ورثۃ الانبیاء کی تحقیق

 سوال نمبر 2618 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں زید نے ایک جلسہ میں العلماء ورثۃ الانبیاء اس حدیث کا صریح طور پر انکار کیا اور کہا کہ علماء لوگ اپنی عزت بڑھانے کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ حدیث اپنے طرف سے بنائی ہوئی ہے اور اسٹیج پر علماء اور حفاظ کرام اور سادات کرام بھی موجود تھے لیکن کسی نے انکو ٹوکا نہیں، کیا یہ حدیث پاک کتب حدیث میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو 

قرآن و حدیث کی روشنی میں اس شخص پر کیا حکم جاری ہوگا جو اس حدیث شریف کا انکار کرے ؟

جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور فرمائیں 

المستفتی ۔۔ محمد شعیب اختر 

ساکن ۔۔ بریلی ۔


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

اللھم ہدایۃ الحق والصواب ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔


بے شک علماء دین انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے، 

اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں ، امام ترمذی نے سننِ ترمذی میں ،  امام ابن ماجہ نے سننِ  ابن ماجہ میں ، تحریر کیا ہے ۔


دلائل ملاحظہ فرمائیں 


1۔۔۔۔۔۔صحیح بخاری میں امام بخاری تحریر فرماتے ہیں ۔


""لقول الله تعالى: {فاعلم أنه لا إله إلا الله} فبدأ بالعلم، وأن العلماء هم ورثة الأنبياء""

((صحیح بخاری کتاب العلم باب قبل القول والعمل ، حدیث نمبر 68))


ترجمہ ۔۔

اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : «فاعلم أنه لا إله إلا الله‏» ( آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ) تو ( گویا ) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی ، بیشک علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔



2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام ترمذی نے اس روایت کو ان الفاظ سے روایت کیا ہے:

"" وان الملئکۃ لتضع اجنحتھا رضاء لطالب العلم ، وان العالم لیستغفر لہ من فی السموات ومن فی الارض حتی الحیتان فی الماء وفضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب ، ان العلماء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء کم یورثوا دینارا ولا درھما ، انما ورثوا العلم ، فمن اخذ بہ اخذ بحظ وافر ""

(((سنن ترمذی بابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الفِقْهِ عَلَى العِبَادَةِ، رقم الحديث:2673)))


ترجمہ

۔ بیشک فرشتے طالب  ( علم )  کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے پورا پورا حصہ لیا۔۔ 



3۔۔۔۔۔۔۔امام ابن ماجہ نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ ۔

""وان الملئکۃ لتضع اجنحتھا رضاء لطالب العلم، وان طالب العلم یستغفر لہ من فی السماء والارض حتی الحیتان فی الماء ، وان فضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب ، ان العلماء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما ، انما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر""


(((سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ، باب فضل العلماء حدیث نمبر 223)))


ترجمہ ۔۔

اور فرشتے علم کے متلاشی سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر جھکا دیتے ہیں اور علم کے طلب گار کے لیے آسمان اور زمین کی ہر مخلوق دعائے مغفرت کرتی ہے حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ( اس کے لیے دعائیں کرتی ہیں ) اور عالم کو عبادت گزار پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی فضیلت چاند کو باقی تمام ستاروں پر حاصل ہے ۔ علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں ، نبیوں نے وراثت میں دینار اور درہم نہیں چھوڑے ، انہوں نے تو علم کا ترکہ چھوڑا ہے ، جس نے اسے حاصل کیا ، اس نے وافر حصہ پا لیا ۔


اس حدیث کو ان کتب حدیث کے علاوہ امام ابو داؤد نے 

((سنن ابو داؤد کتاب العلم ، باب الحث علی طلب العلم  حدیث نمبر 3641)) پر ،

 اور امام ولی الدین خطیب تبریزی نے ((مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد اول  حدیث نمبر 201 ص 193 )) پر ،

 اور امام بیہقی نے (( شعب الایمان، جلد سوم  باب فی طلب العلم فصل فی فضل العلم وشرفہ  حدیث:1576 ص 224 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان) پر بھی نقل کیا ہے ۔


مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے ثابت ہوا کہ ""العلماء ورثۃ الانبیاء "" صحیح حدیث ہے ،

 

اب منکر حدیث کا حکم ملاحظہ فرمائیں ۔

حدیث کے منکر پر حکم شرع یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی حدیث کو اس معنی کے اعتبار سے انکار کیا کہ یہ حدیث ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے تو مطلقا کافر ہے  خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ یا اس سے بھی کم درجہ کی ہو ،


جیسا کہ اعلٰی حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان تحریر فرماتے ہیں: 

""حدیث متواتر کے انکار پر تکفیر کی جاتی (یعنی حکم کفر لگایا جاتا) ہے خواہ متواتر باللفظ ہو یا متواتر المعنیٰ اور حدیث ٹھہرا کر جو کوئی استخفاف کرے تو یہ مطلقا کفر ہے اگرچہ حدیث احاد بلکہ ضعیف بلکہ فی الواقع اس سے بھی نازل (یعنی کم درجہ) ہو"""

(( فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ281 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور))


مزید ایک اور جگہ منکرِحدیث کے بارے میں اعلیٰ حضرت مولاناشاہ امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :

 ""جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے اور جو نبی  صَلَّی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے وہ قرآن مجید کا منکر اور جو قراٰن مجید کا منکر ہے اللّٰہ واحد قہار کا منکر ہے اور جو اللّٰہ کا منکر ہے صریح مرتد کافِر ہے ۔       

((فتاوٰی رضویہ جلد 14 صفحہ 313 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور))


اور رہی بات مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے یا کسی خاص حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے؟ 

تو جان لیجئے کہ مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے ،یعنی صرف قرآن کو مانے اور حدیث کا علی الاطلاق انکار کرے ، تو حکم کفر ہے ۔

اور کسی خاص حدیث کا انکار کرتا ہے اور وہ حدیث مجروح ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور اگر کسی حدیث صحیح کا انکار کرتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ شخص گمراہ ہے۔ اس پر توبہ تجدید ایمان لازم و ضروری ہے۔


جیسا کہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب نے تحریر فرمایا ہے: 

""حدیث کا مطلقاً انکار کرنے والا کافر ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں حدیث نہیں مانتا۔  لیکن اگر کسی نے کسی خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں مانتا اور وہ حدیث مجروح ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن اگر کسی حدیث صحیح کے بارے میں یہ کہا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ گمراہ ہے ،

اور اگر کسی نے یہ کہا میں پوری کتاب (مشکوٰۃ) میں جو حدیثیں ہیں (یعنی یہ کہا کہ مشکوٰۃ میں جتنی حدیثیں ہیں ان میں سے کسی کو نہیں مانتا) اس کو نہیں مانتا تو وہ بھی ضرور کافر ہے اس پر توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ہے""

(( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول کتاب العقائد ، عقائد متعلقہ نبوت صفحہ 564  ، 565 ))


مذکورہ بالا تمام دلائل و براہین سے ثابت ہوا کہ زید نےجلسہ میں اسٹیج سے عوام الناس کے سامنے ایک مخصوص حدیث (خبر واحد جس کا انکار فسق و گناہ ہے )کا لاعلمی میں انکار کیا اور وہ حدیث مختلف کتب حدیث میں مع سند و متن موجود ہے ، لہذا اس حدیث کے انکار کے سبب زید مجرم اور گنہگار ہوا ، زید پر توبہ لازم ہے ، نیز ساتھ میں جو علماء و مشائخ اسٹیج پر موجود تھے ان کو اس حدیث کا علم تھا پھر بھی زید کو قدرت کے با وجود منع نہیں کیا،  لہذا ان سب پر بھی توبہ لازم ہے ،

لہذا زید پر ضروری ہے کہ سب کے سامنے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعلان کرے اور اپنی بات سے رجوع کرے اور رب کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ کرے ،


واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم باالصواب۔


کتبہ ۔ العبد الضعیف الحقیر المحتاج الی اللہ القوی المتین محمد ایاز حسین تسلیمی ۔

ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی ۔



تاریخ اردو ۔ 20 ربیع الاول ۔

تاریخ انگریزی۔، 2024 ، 9، 24




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney