سوال نمبر 2632
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید کی بیوی سسرال سے میکے گئ جو 150 کلو میٹر کی مسافت پر ہے وہاں پہنچ کر اس نے 12 دن ٹھہرنے کی نیت کی اور چار دن تک قصر نماز پڑھتی رہی چار دن بعد زید نے کال پر کہا کہ تم 12 دن کی بجاۓ مزید 3 دن ملا کر پندرہ دن رکنے کی نیت کرلو اور نماز مکمل پڑھو تو اس کی بیوی نے پندرہ دن رکنے کی نیت کرلی اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا پندرہ دن کی نیت کر لینے سے زید کی بیوی پر نماز مکمل پڑھنا ضروری ہے یا قصر اور جو نماز پہلے پڑھ چکی اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیے۔
المستفتی: سید محمد فضل قادری بروڈہ گجرات
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مذکورہ میں گزشتہ چار دن منہا ہوں گے اور 11 دن قیام ہوگا جو مدت اقامت ( 15 دن یا اس سے زیادہ ) کے لیے نا کافی ہےاس لیے زید کی بیوی نماز میں قصر کرےگی اور اگر واقعی اب سے آئندہ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت ہو ( یعنی چار دن نکال کر اب سے 15 دن تک قیام کی نیت کرے ) تو نماز مکمل ادا کرےگی۔باقی چار دن تک پڑھی ہوئی قصر نماز درست ہے!
اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔کہ حالت سفر میں مسافر کسی جگہ پہنچ کر پندرہ دن سے کم قیام کی نیت کرے تو نماز میں قصر کرےگا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز مکمل ادا کرےگا!
دریافت کردہ صورت میں چونکہ زید کی بیوی نے میکے پہنچ کر پندرہ دن سے کم ( 12 دن ) قیام کی نیت کی اور چار دن تک قصر نماز پڑھتی رہی چار دن بعد پھر زید کے کہنے پر مزید 3 دن ملا کر پندرہ دن کی نیت کرلی تو یہ مستقل 15دن کی نیت نہیں ہوئی بلکہ اس صورت میں گزشتہ چار دن منہا ہوگے اور 11 دن ہی باقی رہیں گے جو مدت قیام یعنی پندرہ دن سے کم ہیں جس بنا پر وہ شرعی مسافر ہوئی اور مسافر پر نماز میں قصر لازم ہے۔اس وجہ سے اس دوران چار دن تک پڑھی جانے والی قصر نمازیں درست ہوئیں۔اب اگر واقعی گزشتہ چار دنوں کو منہا کرکے آئندہ پندرہ دن سے کم قیام کی نیت کرتی ہو جیساکہ اوپر بیان ہوا تو ایسی صورت میں نماز قصر پڑھےگی خواہ گزشتہ چار دنوں کو ملا کر 15 دن سے زیادہ ہی قیام کیوں نہ ہوجاۓ۔اور اگر آئندہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت ہو تو نماز مکمل پڑھےگی!
ہدایہ شرح بدایہ میں حضرت علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر بن عبدالجلیل الفرغانی المرغینانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"ولو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك".( ہدایہ شرح بدایةالمبتدی ج ١ ص ٨٠ )
یعنی: اور اگر کوئی شخص کسی شہر میں کل یا پرسوں نکلنے کے ارادے سے داخل ہوا اور ایک مدت قیام ( پندرہ دن یا اس سے زیادہ ) ٹھہرنے کا ارادہ نہ کیا یہاں تک کہ برسوں تک اسی حالت میں رہا تو وہ نماز قصر ادا کر دےگا، کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے آذربائیجان میں چھ ماہ قیام کیا اور آپ نماز میں قصر فرماتے تھے اور صحابہ کرام کی ایک جماعت نے بھی ایسا ہی کیا۔
حضرت ابوالحسن علی بن حسین بن محمد السغدی النتف فی الفتاوی السغدی میں فرماتے ہیں:"و يصير مقيماً بشيئين:أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان"
( النتف فی الفتاوی السغدی ج ١ ص ٧٦ )
یعنی: وہ دو چیزوں سے مقیم بنتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر وہ جہاں کہیں بھی پندرہ دن ٹھہرنے کا فیصلہ کر لے
حضرت علامہ شیخ الاسلام حافظ الشیخ ابوالفضل عبداللہ بن محمود البغدادی الخیزرانی الموصلی الحنفی علیہ الرحمہ الاختیار لتعلیل المختار میں فرماتے ہیں:"قال: (و لايزال على حكم السفرحتى يدخل مصره أو ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مصر أو قرية ) لأن السفر إذا صح لايتغير حكمه إلا بالإقامة ، والإقامة بالنية أو بدخول وطنه ، لأن الإقامة ترك السفر ، فإذا اتصل بالنية أتم."
( الاختیار لتعلیل المختار ج ١ ص ٨٥ )
یعنی: فرمایا:اپنے مصر میں داخل ہونے تک سفر کے حکم میں رہتا ہے یا مصر یا کسی گاؤں میں پندرہ دن قیام کا ارادہ کرتا ہے) کیونکہ اگر سفر صحیح ہے تو اس کا حکم نہیں بدلتا سوائے اقامت کے، اور اقامت نیت کے ساتھ ہے۔ یا اپنے ملک(گاؤں یا شہر)میں داخل ہونے سے، کیونکہ اقامت سفر کو ترک کرتی ہے، اس لیے اگر اس کا تعلق نیت سے ہو تو مکمل نماز پڑھے۔
واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلی اعلم بالصواب
عز و جل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ٢٦ ربیع الآخر ١٤٤٦ھ
بمطابق ٣٠ اکتوبر ٢٠٢٤ء بروز بدھ
0 تبصرے