سوال نمبر 2633
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ فرید ایک کمپنی میں جاپ کرتا ہے وہ کمپنی غیر ملکی ہےاور اس کا کام سود کے پیسوں کا انٹرسٹ کا حساب وکتاب کرنا ہوگا کیا فرید یہ نوکری کرسکتا ہے؟
المستفی ۔۔سیدعرفان حیدرآد دکن
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر یہ کمپنی کافر کی ہے تو ایسی صورت میں نوکری کرسکتا ہے کوئی قباحت نہیں
کیوں کہ کفار اور مسلمان کےدرمیان سود نہیں ہوتا جیسا علامہ برہان الدین ابوالحسن مرغینانی متوفی ۵۹۳ھ تحریر فرماتے ہیں : ولابین المسلم و الحربی فی دارالحرب ۔ لنا قلولہ علیہ السّلام الربوا بین المسلم و الحربی فی دارالحرب ولان مالھم مباح فی دارھم فبای طریق اخذہ المسلم اخذ مالا مباحا اذا لم یکن فیہ غدر۔(الھدایۃ ، المجلدالثالث ، کتاب البیوع ، ص ۹۰/مکتبہ رحمانیہ لاہور)
اور اگر وہ مسلمان کی ہے تو ایسی صورت میں حرام اشد حرام ہے کیوں کہ سود کے متعلق جتنے بھی معاملات ہیں مثلا اسکی لکھت پڑھت یعنی حساب وکتاب و گواہی وغیرہ سب کے سب ناجائزہے اورمصطفی علیہ السلام نے ان سب پر لعنت فرمائی ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے:عن جابر قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء"حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں (الصحیح المسلم ، المجلد الثانی ، كتاب المساقاة ، ص۲۷/مجلسِ برکات)
کتبہ
عبیداللہ حنفی بریلوی
0 تبصرے