آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

فجر اور ظہر کی سنتیں پڑھنے کے بعد بات کرنا کیسا؟

 سوال نمبر 2635


السلام عليكم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں اس مسئلے میں کہ زید کہتا ہے کہ فجر کی دو اور ظہر کی چار سنتوں کو پڑھنے کے بعد اگر کسی سے دنیاوی بات چیت کرلیا تو سنتیں ساقط ہو جائے گی یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور عصر اور عشاء کی سنتوں کو پڑھنے کے بعد اگر بات چیت کرلیا گیا تو سنتوں کو دوبارہ پڑھنا مستحب ہے جبکہ بکر کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی


فقیر: رئیس احمد سبحانی بستوی


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب 

زید کا قول سراسر غلط ہے نہ سنت فجر وظہر کے بعد بات کرنے سے سنت ساقط ہوتی ہے اور نہ ہی عصر و عشاء کی سنت کے بعد بات کرنے سے سنت پر کوئی فرق پڑتا ہے۔

البتہ مسجد میں دنیاوی بات کرنا ضرور ممنوع ہے 

جیسا کہ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے کے بارے میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکویں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو فتح القدیر میں ہے ـ

*الکلام المباح فیہ مکروہ باکل الحسنات اشباہ میں ہے انہ باکل الحسنات کما تاکل النار الحطب اھ


*امام ابو عبد اللہ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نقل کی ھیکہ الحدیث فی المسجد یاکل الحسنات کما تاکل البھیمستہ الحشیش اھ*


مسجد میں دنیا کی بات نیکیوں کو اس طرح کھاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو ـ


*غمزالعیون میں خزانتہ الفقہ سے ہے۔*

*من تکلم فی المساجد بکلام الدنیا احبط اللہ تعالی عنہ عمل اربعین سنتہ جومسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ تعالی اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے ـاقول مثلہ لا یقال بالرای رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ـ*

سیکون فی آخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مسجد ھم لیس اللہ فیھم حاجتہ ـ آخر زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کریں گے ـ

اللہ عزوجل کو ان لوگوں سے کچھ کام نہیں ، رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ـ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے ـ


*کلام الدنیا اذ کان مباحا صد قا فی المساجد بلا ضرورتہ ورتہ داعیتہ الی ذلک کالمتکف یتکلم فی حاجتہ اللا زمتہ مکروہ کراھتہ تحریمہ ثم ذکر الحدیث وقال فی شرحہ لیس اللہ تعالی فیھم حاجتہ ای لا یرید بھم خیرا وانماھم اھل الخیبتہ والحرمان والا ھانتہ والخسران اھ*


یعنی دنیا کی بات جب کہ فی نفسہ مباح  اور سچی ہو مسجد میں بلا ضرورت کرنی حرام ہے ضرورت ایسی جیسے معتکف اپنے حوائج ضروریہ کےلئے بات کرے پھر حدیث مذکور ذکر کرکے فرمایا . معنی حدیث یہ ہےیں کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہ کرے گا اور وہ نا مرادومحروم وزیاں کار اور اہانت وذلت کے سزاوار ہیں ـ


*اسی میں ہے وروی ان مسجد امن المساجد ارتفع الی السماء شاکیہ من اھلہ یتکلمون فیہ بکلام الدنیا فا ستقبلتہ الملئکتہ وقالوا بعشنا یھلا کھم  اھ ـ*

یعنی مروی ہوا کہ ایک مسجد اپنے رب کے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ملائکہ اسے آتے ملے اور بولے ہم ان کے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں ، اسی میں ہے ـ


وروی ان الملئکتہ یشکون الی اللہ تعالی من فتن فم الغتابین والفائلین فی المساجد بکلام الدنیا یعنی روایت کیا گیا کہ جولوگ غیبت کرتے ہیں ( سخت حرام اور زنا بھی اشد ہے ) اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے وہ گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عزوجل کے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کی شکایت کرتے ہیں ـ سبحان اللہ جب مباح وجائز بات بلا ضرورت شرعیہ کرنے کو مسجد میں بیٹھنے پریہ آفتیں ہیں تو حرام وناجائز کام کرنے کا کیا حال ہوگا ـ


فتاوی رضویہ جلد ششم صفحہ ۴۰۳

ماخوذ فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۳۱۵تا ۳۱۶


لہذا زید پر لازم ہے کہ توبہ کرے اور آئندہ غلط مسئلہ نہ بتانے کا عہد کرے۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  مَنْ أَفْتَى بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسے فتویٰ دینے والے پر ہے،

(مشکوۃ شریف حدیث نمبر 242)

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب


کتبہ"فقیر قادری احقرالعباد محمد مشاہدرضاقادری واسطی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney