سوال نمبر 2640
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علما دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل رافضی ٹولہ حدیث قرطاس کا ذکر کر کے حضور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بکواس کرتے ہیں اس بارے میں تفصیل سے رہنمائی فرمادیں
المستفتی: سید شاہد حسین شاہ بخاری پاکستان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری بیماری میں قلم اور کاغذ منگوایا،حاضرین میں سے بعض نے لانے کو کہا بعض نے اس وقت لانا مناسب نہ سمجھا اس گفتگو میں آوازیں بلند ہوئیں سرکار نے سب کو وہاں سے کھڑے ہونے کا حکم دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں کتاب اللہ (القرآن) کافی ہے، بعض صحابہ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر یہ طرز عمل بہت ناگوار گزرا مگر قلم کاغذ کسی نے پیش نہیں کیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت آپ کو تکلیف دینے کو مناسب نہ سمجھا گیا اس کے بعد پانچ دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحیات رہے مگر دوبارہ قلم کاغذ نہ مانگا جس کا مطلب یہ ہے کہ تحریر ضروری نہ تھی جو فرمانا تھا آخر وقت تک فرماتے رہے، امت نے اس کو سنا سمجھا اور اس پر عمل کیا، اگر یہ تحریر لازمی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد میں بھی لکھوا سکتے تھے، یہ ہے حدیث قرطاس کا پس منظر اور مفہوم۔"
"صحیح بخاری"میں ہے:"عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ ﷲِ وَجَعُه فَقَالَ ائْتُونِي أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَه أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا شَأنُه أَهجَرَ اسْتَفْهمُوه فَذَهبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْه فَقَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيه خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْه وَأَوْصَهمْ بِثَلَاثٍ قَالَ أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِينَ مِنْ جَزِيرَة الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِيزُهمْ وَسَکَتَ عَنِ الثَّالِثَة أَوْ قَالَ فَنَسِيتُها.
’’حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما نے بتایا کہ جمعرات! اور جمعرات کا روز کیا ہے؟ اس روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری شدید ہوگئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لکھنے کی چیزیں لاکر دو تاکہ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو، حاضرین میں تنازع ہوگیا، حالانکہ نبی کی بارگاہ میں جھگڑنا مناسب نہ تھا، بعض حضرات کہنے لگے کہ شاید آپ بیماری کے باعث ایسا فرما رہے ہیں، پس انہوں نے دوبارہ جاکر دریافت کیا، تو فرمایا اس بات کو جانے دو، جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم بلا رہے ہو، اور آپ نے انہیں تین باتوں کی وصیت فرمائی، ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا، دوسری یہ کہ ایلچیوں کو انعام دو جیساکہ میں دیتا تھا، اور تیسری وصیت سے وہ خاموش ہوگئے یا فرمایا کہ میں بھول گیا۔‘‘
(الرقم: ٤١٦٨، مطبوعہ دار ابن کثير)
”صحیح بخاری“میں ہے:"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ ﷲُ عَنْهمَا قَالَ لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ ﷲِ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِيُّ هلُمُّوا أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه فَقَالَ بَعْضُهمْ إِنَّ رَسُولَ ﷲِ قَدْ غَلَبَه الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲِ فَاخْتَلَفَ أَهلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه وَمِنْهمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذَلِکَ فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ ﷲِ قُومُوا قَالَ عُبَيْدُ ﷲِ فَکَانَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ الرَّزِيَة کُلَّ الرَّزِيَة مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ ﷲِ وَبَيْنَ أَنْ يَکْتُبَ لَهمْ ذَلِکَ الْکِتَابَ لِاخْتِلَافِهمْ وَلَغَطِهمْ.
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس وقت حجرۂ رسول میں کافی لوگ جمع تھے، اس وقت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دیتا ہوں تاکہ میرے بعد تم گمراہی سے بچے رہو۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شدتِ مرض کے باعث ایسا فرما رہے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم تمہارے پاس موجود ہے، تو ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پس اہل بیت نے اس خیال سے اختلاف کیا اور جھگڑنے لگے۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ نزدیک جاکر تحریر لکھوالی جائے تاکہ ہم بعد میں گمراہی سے بچے رہیں، اور بعض حضرات نے کچھ اور رائے پیش کی۔ جب یہ بیکار اختلاف بڑھ گیا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے اُٹھ جاؤ۔ عبیداللہ نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت آ پڑی تھی کہ بعض حضرات اختلاف اور بیکار گفتگو کر کے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جس تحریر کو لکھنے کے لئے آپ فرماتے تھے، اس کے درمیان حائل ہوگئے‘‘۔
(الرقم: ٤١٦٩، مطبوعہ بیروت-لبنان)
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:"اجمالی جواب:اجمالی جواب یہ ہے کہ یہ کام صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں بلکہ دوسرے صحابہ بھی اس میں شریک ہیں۔ اس لئے کہ جتنے صحابہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارک میں موجود تھے اور اس معاملہ میں وہ لوگ دو گروہ ہو گئے تھے اور حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی اس وقت موجود تھے تو اگر یہ دونوں حضرات لکھنے کا سامان نہ لانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کرتے تو یہ سارے الزامات ان دونوں حضرات پر بھی عائد ہوتے ہیں‘ اور اگر یہ لوگ لکھنے کا سامان لانے کی تائید میں تھے یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے تو اس صورت میں حضور کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے اور روکنے والوں کے سبب رک جانے یعنی لکھنے کا سامان حاضر نہ کرنے کا الزام ان دونوں حضرات پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے لکھنے کا سامان کیوں نہ پیش کر دیا‘ اور پھر یہ واقعہ جمعرات کا ہے‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال د وشنبہ مبارکہ (پیر) کو ہوا تو فرصت کا موقع بہت تھا۔ حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے اس درمیان میں حضور سے کیوں نہ لکھوا لیا‘ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ان لفظوں کے ساتھ تھا۔ ابتونی بقرطاس یعنی تم لوگ میرے پاس کاغذ لاؤ‘ تو یہ حکم سب حاضرین سے تھا نہ کہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے‘ لہٰذا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم فرض یا واجب مانا جائے تو حاضرین میں سے ہر ایک کو گنہ گار تسلیم کرنا پڑے گا‘ اور اگر فرض و واجب نہ مانا جائے تو ان میں سے کسی پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا اور یہی حق ہے۔اہل تشیع رافضیوں کے سارے اعتراضات باطل وغلط ہیں۔
(فتاویٰ فیض الرسول، کتاب العقائد، جلد ١، صفحہ ١٣٣، مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور)
والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب
کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند
خادم التدریس: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
١٣ جمادی الاولی ١٤٤٦ھ ١٦ نومبر ٢٠٢٤ء بروز سنیچر
0 تبصرے