آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کی حقیقت

 سوال نمبر 2644


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاته 

 مفتیان کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ شامی کی (لَوْ رَعَفَ فَكَتَبَ الْفَاتِحَةَ بِالدَّمِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ جَازَ لِلِاسْتِشْفَاءِ ، وَبِالْبَوْلِ أَيْضًا اھ....(رد المحتار لابن عابدین: ج ١،ص ٤٠٦، مطلب فی التداوی بالمحرم) اس عبارت میں دم مسفوح اور پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا جواز لکھا ہے۔ اس کا کیا حکم ہے اس کی وضاحت فرمادیں


المستفتی: بلال ارشد القادری گجرات پاکستا



وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاته 

                  {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق:”سوال میں ذکر کردہ عبارت ناقص ہے ورنہ مکمل عبارت سے واضح ہے کہ دم مسفوح یا پیشاب سے قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کسی آیت کی کتابت سخت ناجائز ہے کیونکہ دم مسفوح اور پیشاب یہ ناپاک چیزیں ہیں اور قرآن مجید مکرم ومحترم ہے اُس سے اس کی بےحرمتی ہوگی البتہ اگر کسی بیماری سے شفایابی دم مسفوح یا پیشاب سے ان کی کتابت کرنے سے یقینی اور حتمی ہو تو علماء کرام نے جائز رکھا ہے جیساکہ بحالت مجبوری شراب نوشی جائز ہے لیکن پیشاب وغیرہ سے قرآن کی کتابت سے کسی بیماری سے شفا کا کامل یقین نہیں ہے اس لیے ان کے ذریعے کتابت ناجائز وحرام ہے۔

            محمد امین بن عمر عابدین الشامی المتوفی ١٢٥٢ھ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے:

لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضاً إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل ، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع .. هـ. من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر : إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى .. هـ

ترجمہ: اگر نکسیر آئے پھر سورۂ فاتحہ پیشانی اور ناک پر خون سے لکھی تو شفا حاصل کرنے کے لئے جائز ہے اور خون سے لکھنا بھی جبکہ شفا یقینی ہو،لیکن یہ منقول نہیں ہے، اور یہ اس لیے کہ حرمت استشفاء کے وقت ساقط ہوجاتی ہے جیساکہ پیاسے اور بھوکے کے لئے شراب اور مردار کی حلت،(بحر) اور سید عبد الغنی نے بیان فرمایا کہ ان کے کلام میں اختلاف ظاہر نہیں ہوتا ہے ان کے ضرورت کے وقت جواز پر متفق ہونے کی وجہ سے، اور صاحب نہایہ نے یقین کو شرط بتایا اس کے بعد شفا کا اشتراط اس کے منافی نہیں ہے، اور اسی وجہ سے میرے والد صاحب نے شرح درر میں فرمایا کہ: ان کا قول (للتداوی) مظنون پر محمول نہیں ہے، ورنہ تو اس کا جواز بالیقین اتفاق ہے جیساکہ مصفی میں اس کی صراحت فرمائی گئی ہے۔

(کتاب الطھارۃ، باب المیاہ، مطلب فی التداوی بالمحرم، جلد ١، صفحہ ٣٦٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

والله تعالیٰ أعلم بالصواب 



کتبه عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 

خادم الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند

٣ جمادی الآخر ١٤٤٦ھ۔ ٦ دسمبر ٢٠٢٤ء۔ بروز جمعۃ المبارک




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney