سوال نمبر 2655
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بیوی نے غصے میں شوہر کو کہا تو کمینہ ہے تو شوہر نے کہا کہ اگر میں کمینہ ہوں تو تجھے طلاق مغلظہ، آیا اس طرح کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ با حوالہ جواب عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔
(سائل: غلام جیلانی، سعد اللہ نگر)
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: صورت مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل طلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔ چنانچہ علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی متوفی ۸۶۱ھ لکھتے ہیں اور اُن سے علامہ شہاب الدین احمد شلبی حنفی متوفی ۱۰۲۱ھ نقل کرتے ہیں: في الجامع الأصغر قال الفقيه أبو جعفر: إذا قالت المرأة لزوجها شيئا من السب نحو قرطبان وسفلة فقال: إن كنت كما قلت: فأنت طالق طلقت سواء كان الزوج كما قالت أو لم يكن لأن الزوج في الغالب لا يريد إلا أن يؤذيها بالطلاق كما آذته.
(فتح القدیر، ۴/۱۲۸)
(حاشیۃ الشلبی علی التبیین، ۲/۲۳۷)
یعنی، ’’جامع اصغر‘‘ میں ہے فقیہ ابو جعفر نے کہا: جب عورت نے اپنے شوہر کو گالی دی جیسے یا قرطبان، یا سفلة مرد نے کہا: اگر میں اسی طرح ہوں جس طرح تو نے کہا ہے تو تجھے طلاق ہے تو طلاق ہوگئی خواہ شوہر اس طرح ہو جس طرح عورت نے کہا یا ایسا نہ ہو کیونکہ شوہر اکثر طلاق کے ساتھ عورت کو اذیت دینا چاہتا ہے جیسے عورت نے ایذا دی۔
اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ لکھتے ہیں: وكونه متصلا إلا لعذر وأن لا يقصد به المجازاة، فلو قالت يا سفلة فقال: إن كنت كما قلت فأنت كذا تنجيز كان كذلك أو لا۔
(الدر المختار مع شرحہ رد المحتار، ۳/۳۴۳، ۳۴۴)
یعنی، اور تعلیق صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ شرط متصل ہو مگر عذر کی وجہ سے، اور اس کے ساتھ عورت کو بدلہ دینے کا اِرادہ نہ ہو، پس اگر عورت نے کہا: اےکمینہ تو مرد نے کہا: اگر میں اسی طرح ہوں جس طرح تو نے کہا ہے تو تجھے طلاق ہے تو طلاق ہوگئی خواہ مرد ایسا ہو یا نہ ہو۔
اس کے تحت علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ۹۷۰ھ کے حوالے سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ نقل کرتے ہیں: فلو سبته بنحو قرطبان وسفلة، فقال: إن كنت كما قلت فأنت طالق تنجز سواء كان الزوج كما قالت أو لم يكن لأن الزوج في الغالب لا يريد إلا إيذاءها بالطلاق۔
(البحر الرائق، ۴/۳)
(رد المحتار، ۳/۳۴۳)
یعنی، اگر عورت نے اپنے شوہر کو گالی دی جیسے یا قرطبان، یا سفلة تو مرد نے کہا: اگر میں اسی طرح ہوں جس طرح تو نے کہا ہے تو تجھے طلاق ہے تو طلاق ہوگئی چاہے شوہر اس طرح ہو جس طرح عورت نے کہا یا ایسا نہ ہو کیونکہ شوہر اکثر طلاق کے ساتھ عورت کو اذیت دینا چاہتا ہے۔
اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: اور (تعلیق صحیح ہونے کے لیے) یہ بھی شرط ہے کہ ''شرط'' متصلاً(یعنی ساتھ ہی)بولی جائے اور یہ کہ سزا دینا مقصودنہ ہو مثلاً عورت نے شوہر کو کمینہ کہا شوہر نے کہا اگر میں کمینہ ہوں تو تجھ پر طلاق ہے تو طلاق ہوگئی اگرچہ کمینہ نہ ہو کہ ایسے کلام سے تعلیق مقصود نہیں ہوتی بلکہ عورت کو ایذا(تکلیف) دینا(مقصود ہوتا ہے)۔
(بہار شریعت، جلد ۲، حصہ ۸، ص ۱۴۹)
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
اتوار،۲۴/شعبان، ۱۴۴۶ھ۔۲۳/فروری، ۲۰۲۵م
0 تبصرے