سوال نمبر 2682
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
شوہر(زید) کا انتقال ہوگیا اس نے بیوی اور ایک بہن چھوڑا اور دو بہنیں زید سے پہلے ہی انتقال کرچکی ہیں ان کی اولادیں ہیں تو اس صورت میں زید کا مال کیسے تقسیم ہوگا شریعت کے مطابق جواب عنایت فرمائیں
المستفتی، عبد اللہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
میت کی تجہیز وتکفین اور اگر قرض وغیرہ ہو تو اس کی ادائیگی اور وصیت کی ہو تہائی مال یا اس سے کم کی تو یہ سب ادا کرنے کے بعد کل مال متروکہ کے چار حصے کئے جائیں گے
جس میں سےمرحوم کی بیوہ کو چوتھا حصہ ملے گا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ. اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو (النساء، پارہ 4 آیت 12)
اورنصف مرحوم کی بہن کو ملے گا۔ ارشادِ ربانی ہے: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ. اے محبوب تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں کلالہ میں فتویٰ دیتا ہے اگر کسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں سے اس کی بہن کا آدھا ہے (النساء، 4: 176)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مرحوم کے ترکہ سے اس کی بیوہ کو چوتھا حصہ اور بہن کو آدھا حصہ ملے گا۔ اگر واقعی ان کے علاوہ مرحوم کا کوئی وارث نہیں ہے تو باقی ایک حصہ بھی رد کے قاعدے کے مطابق بہن کو مل جائے گا۔ اس طرح مرحوم کے کل مال کے چار برابر حصے بنا کر ایک بیوہ کو دیا جائے گا اور باقی تین حصے مرحوم کی بہن کو ملیں گے۔
اور جو بہنیں میت سے پہلے انتقال کر گئیں ان کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
کتبہ
محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی


0 تبصرے