سوال نمبر 9
کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید فال کھولتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمھارا یہ کام ہوگا یہ کام نہیں
ہوگا اس کی حقیقت کیا ہے اور فال کھولنے اور کھلوا والے پر حکم شرع کیا ہے.
سائل محمد وسیم فیضی رضوی
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب
فال ایک قسم کا استخارہ ہے. استخارہ کی اصل کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے. دیوان حافظ وغیرہ(یا اس کے.مثل کتاب )سے بطور تفاول جائز ہے. (فتاوی رضویہ جلد ۲۳.صفحہ.۳۹۷)
مگر یہ ہے فالنامہ جواب عوام میں مشہور ہے اور اکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل و باطل ہے کیونکہ قرآن عظیم سے فال کھولنامنع و مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت ضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن عظیم سے فال دیکھنے میں ائمہ مذاہب اربعہ کے چار قول ہیں بعض حنبلیہ مباح کہتے ہیں اور شافعیہ مکروہ تنزیہی اور مالکیہ حرام کہتے ہیں اور ہمارے علمائے حنفیہ فرماتے ہیں ناجائز وہ ممنوع وہ مکروہ تحریمی ہے قرآن اس لیے نہ اتارا گیا ہمارا قول قول مالکیہ کے قریب ہے بلکہ عند التحقیق دونوں کا ایک حاصل ہے
اور شرح فقہ اکبر میں ہے امام قو نوی نے فرمایا نجومی اور رمال اور علم حروف کی مدعی کی پیروی جائز نہیں کیونکہ وہ کاہن کے مثل ہے مصحف شریف کی فال ہے قرآن مجید کھول کر پہلا صفحہ اور ساتویں صفحہ کی ساتویں سطر دیکھیں الخ ملخصا(فتاوی افریقہ صفحہ 149)
فال کھولنے والا اگر استخارہ کرکے بتاتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے یا دیوان حافظ وغیرہ(یا اس کے.مثل کتاب )سے فال کھولتا ہے تو یہ جائز ہے نہ کھولنےوالے پر گناہ ہے نہ کھو لوانے والے پر کیوں کہ یہ نیک فال ہے اور اس کا ذکر احادیث طیبہ میں موجود ہے "حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ،عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات اور بدشگونی کوئی چیز نہیں، اور میں فال نیک کو پسند کرتا ہوں ۔ (ابن ماجہ.حدیث نمبر 3537)
اور اگر قرآن مجید سے فال نکالتا ہو تو یہ ضرور ناجائز ہے ایسے شخص پر تو لازم ہے اگر پوشیدہ طور پر کرتا ہو تو توبہ کرلے اور اگر اعلانیہ کرتا ہو تو اعلانیہ توبہ لازم ہے اس صورت میں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے جس کا دہرانا واجب ہے اور اگر توبہ کرلے اور فال بد. چھوڑ دے تو کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی غفور الرحیم ہے توبہ کو قبول فرماتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے " اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ" بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے سھتروں کو- ﴿ سورہ بقرہ ۲۲۲﴾ واللہ اعلم بالصواب
کــتـــبہ
الفقیر تــاج محـمد قادری واحدی اترولوی
2 تبصرے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ برکاتہ
جواب دیںحذف کریںکیافرماتےعلماےکرام غیرمزہب سے مسجد کے چندے کا سوال کرنا درست ہے
جواب عنایت فرمائیں
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ برکاتہ
جواب دیںحذف کریںکیا فرماتے ہیں علماء کرام
مسجد کے لئے غیر مزہب سےچندے کا سوال کرنا کیسا ہے