آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

ابوطالب کا تحقیقی جائزہ

سوال نمبر 163

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین کہ ابوطالب مسلمان تھے یا کافر قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

الجواب بعون الملک الوھاب
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا: آپ لا اٰلہ الا اللہ کہہ دیں۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا:  اگر مجھے قریش طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے آمادہ کردیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿یقینا جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ جسے اللہ چاہے ہدایت عطا فرمادیتا ہے۔ القصص: ۵۶﴾  "  (صحیح مسلم: ۲۵)

 سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: "اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے جو ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ۔ وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے غصے ہوجایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! (میں نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے) وہ اب بالائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔" (صحیح البخاری:۳۸۸۳، صحیح مسلم: ۲۰۹)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "انہوں نے نبیٔ  اکرم ﷺ کو سنا۔ آپ کے پاس آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شاید کہ اُن کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور اُن کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صر ف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) اُن کا دماغ کھولے گا۔" (صحیح البخاری: ۳۸۸۵، صحیح مسلم: ۲۱۰)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھول رہا ہوگا۔" (صحیح مسلم: ۲۱۲)

خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: "جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے چچا فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاکر دفنا دیں۔ میں نے عرض کی: یقینا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔" (مسند الطیالسی: ص ۱۹،ح۱۲۰ وسندہ حسن متصل)

ایک روایت کے الفاظ ہیں: "سیدنا علی رضی اللہ نے عرض کی: آپ کے  گمراہ چچا فوت ہوگئے ہیں۔ ان کو کون دفنائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔" (مسند الامام احمد: ۹۷/۱، سنن ابی داؤد: ۳۲۱۴، سنن النسائی: ۱۹۰، ۲۰۰۸، واللفظ له، و سندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (کما في الاصابة لابن حجر: ۱۱۴/۷) اور امام ابن جارود رحمہما اللہ (۵۵۰) نے "صحیح" قرار دیا ہے۔

یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی

ابو داؤد شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
مسدد، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لئے دعا فرمائی۔
سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1446
مسند امام احمد اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا، چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں ۔
مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 1039
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ نَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جہنم میں سب سے ہلکاعذاب ابو طالب کو ہوگا، انہوں نے آگ کی دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جس سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلتا ہوگا۔
مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 764
مزید اور کتب حدیث میں روایات موجود ہیں جس سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے اور کفر پر فوت ہونے کی صحیح روایات موجود ہیں
وہ کتب جن میں ابو طالب کے کفر پر خاتمہ کا ذکر آیا ہے
مسند احمد مشکوہ شریف کنزالعمال حاکم مستدرک جامع صغیر مسند ابوداود طیالسی طبقات ابن سعد اسد الغابہ معجم طبرانی مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبہ مسند اسحق راہویہ مسند بزار مدارج النبوہ الوفاء ابن جوزی کتاب الشفاء حلیہ الاولیاء تاریخ ابن عساکر سیرت حلبیہ وغیرہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں
کیا اعلی حضرت کے پیر گھرانہ کی کتاب سبع سنابل شریف میں ابو طالب کو مسلمان کہا گیا ہے
سبع سنابل کے حوالے سے رافضی نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت میر عبدالواحید بلگرامی علیہ الرحمہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے؟ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضی کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت میر عبدلواحید بلگرامی علیہ الرحمہ کا وہی موقف ہے جو چودھویں صدی کے مجدد کا موقف ہے جمع اہل سنت وجماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا
اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا
حضرت میر عبدالواحید بلگرامی سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں
میرے بھائ اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_ جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے
سبع سنابل شریف صفحہ ۸۹


یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) فرماتے ہیں
فقد أَجمع المفسرون علي انھا نزلت في ابي طالب، وكذا نقل إجماعھم علي ھذا الزجاج وغيره، وھي عامه فانه لا يھدي الا يضل الا الله تعاليٰ
مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ زجاج وغیرہ نے مفسرین کا اجماع اسی طرح نقل کیا ہے۔ یہ آیت عام ( بھی ) ہے۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔“ ( شرح صحیح مسلم للنووی : 41/1)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں 
”بیان کرنے والے اس بات میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔“( فتح الباری لا بن حجر 506/8)

حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں : 
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئے تھے۔“(الروض الانف : 19/4)

یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ابوطالب کافر تھے۔ وہ ملت عبدالمطلب پر فوت ہوئے۔ انہوں نے مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ 

حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : 
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك  یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں-“ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)

  خلیفہ راشد سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ 
جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا کر انہیں دفنا دیں۔“ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔“ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ”اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے  
   لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!“ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)

مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
آنحضرت ﷺ کے چچے اور پھوپھیاں حارث, قثم, حمزہ, عباس, ابوطالب, عبدالکعبہ, جحل, ضرّار, غیداق, ابولہب, صفیہ, عاتکہ, اروی, اُمّ حکیم, بّرہ, امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے (تحقیق الحق فی کلمة الحق ص:١٥٣)

واللہ اعلم بالصواب

 سید عرفان رضوی حسینی



ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

  1. بیشک جناب ابوطالب نے ایمان و اسلام قبول نہیں کیا ،اور کفر و شرک کی حالت میں ان کی موت ہوگئی.

    جواب دیںحذف کریں
  2. جاہل انسان قران میں 14 مقامات سے ابوطالب کا ایمان ثابت ہے قران غلط نہیں ہو سکتا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات

    1. نگہبانِ رسالت جنابِ ابوطالب‘ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے‘ کتبِ تاریخ و حدیث میں ان کی بت پرستی کی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔ آپ کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا‘ آپ کے صاحبزادے سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کم عمری میں اسلام قبول کیا مگر جنابِ ابوطالب نے نہ انکو روکا اور نہ احکامِ اسلام کی بجا آوری پر ان کو کوئی تکلیف دی۔ سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات اور خصائل و شمائل پر جنابِ ابوطالب کے اشعار ان کے ایمان پر سند ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمومی اعلان کے بعد بھی جنابِ ابوطالب کے دستر خوان پر کھانا کھاتے حالانکہ اعلانیہ تبلیغ کے بعد آپ نے کسی مشرک و کافر کے ساتھ کھانا تناول نہیں فرمایا۔ جنابِ ابوطالب نے دشمنان اسلام کے خلاف ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی یہاں تک کہ شعبِ ابی طالب کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں کو سلاتے تاکہ قریش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں‘ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی۔
      جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ جنابِ ابو طالب کی حیات، رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے لیے آپ كى عظيم قربانيوں اور تحفظِ اسلام کے لیے آپ کے اخلاص، جاں نثاری اور فداكاری کا مطالعہ کرے‘ وہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ یہ سیرت، یہ قربانیاں اور یہ جذبات کسی غیرمؤمن کے لئے نہیں ہو سکتا

      حذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney