آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

حدیث لولاک کی تحقیق

سوال نمبر 334

السلام و علیکم ورحمتہ اللہ 
لولاک لما خلقت الافلاک والارضین ۔
یہ جو حدیث قدسی ہے اسکی سند اور حوالہ چاہئے ۔
والسلام جزاءک اللہ تبارک و تعالی۔

السائل عیاض احمد




وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب ھوالموفق للحق والصواب

لوْلاكَ لما خلقتُ الأفلاكَ 
ملا علي قاري (١٠١٤ هـ)، الأسرار المرفوعة ٢٨٨ • قيل لا أصل له أو بأصله موضوع
[لفظه نفس لفظ الحديث ٥ مع اختلاف في الحركات أو علامات الترقيم]

حدیث "لولاک لماخلقت الأفلاک"ان الفاظ کے ساتھ محدثین کے نزدیک ثابت نہیں، البتہ ملاعلی قاری رحمةاللہ علیہ ودیگر محدثین معنی کے اعتبار سے اسے درست قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے حضرت ابن عباس، حضرت عمر، حضرت سلمان رضی اللہ عنہم سے مرفوع روایات اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک اثر بھی پیش کرتے ہیں.

' لولاک لما خلقت الأفلاک، قال الصغاني: موضوع وأقول: لکن معناه صحیح، وإن لم یکن حدیثاً'۔ ( کشف الخفاء ۲/۱۴۸، الموضوعات الکبری /۷۰) 
' أتاني جبریل فقال: یا محمد لولاک ماخلقت الجنة، ولولاک ماخلقت النار'۔ (کنز العمال ۱۱/۱۹۴، رقم:۳۲۰۲۲)
' عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أوحى الله إلى عیسی علیه السلام: یا عیسی آمن بمحمد وأمر من أدرکه من أمتک أن یؤمنوا به فلولا محمدما خلقت آدم، ولولا محمد ماخلقت الجنة ولاالنار، ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب، فکتب علیه لاإله إلا الله محمد رسول الله فسکن'۔ (المستدرک للحاکم، مکتبة نزار مصطفیٰ الباز بیروت ۴/۱۵۸۳، رقم:۴۲۲۷

نیزسیدی سرکاراعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
 "یہ ضرور صحیح ہے کہ ﷲ عزوجل نے تمام جہان حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے بنایا اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیث کثیرہ سے ثابت ہے جن کا بیان ہمارے رسالہ تلالؤ الا فلاک بحلال احادیث لولاک میں ہے اور انہیں لفظوں کے ساتھ شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی نے اپنی بعض تصانیف میں لکھی مگر سندا ثابت یہ لفظ ہیں۔
خلقت الدنیا واھلہالاعرفہم کرامتک ومنزلتک عندی ولولاک یا محمد ماخلقت الدنیا ۔

( یعنیﷲ عزوجل اپنے محبوب اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ) میں نے دنیا اور اہل دنیا کو اس لیے بنایا کہ تمہاری عزت اور مرتبہ جو میری بارگاہ میں ہے ان پر ظاہر کروں، اے محمد ! اگر تم نہ ہوتے میں دنیا کو نہ بتاتا۔
 تاریخ دمشق الکبیر ذکر عروجہ الی السماء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۲۹۷)

اس میں تو فقط افلاک کا لفظ تھا اس میں ساری دنیا کو فرمایا جس میں افلاک و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب داخل ہیں، اسی کو حدیث قدسی کہتے ہیں کہ وہ کلام الہی جو حدیث میں فرمایا گیا ایسی جگہ لفظی بحث پیش کرکے عوام کے دلوں میں شک و شبہہ ڈالنا اور ان کے قلوب کو متزلزل کرنا ہر گز مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:الدین النصح لکل مسلم ۔

دین یہ ہے کہ آدمی ہر مسلمان کی خیر خواہی کرے وﷲ تعالی اعلم۔"

 صحیح البخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الدین النصیحۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳)(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدین النصیحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۴ و۵۵)

مذکورہ بالاصراحت کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اگرچہ ان الفاظ میں  یہ حدیث ثابت نہیں مگر معنیً اسکے صحت میں کوئی کلام نہیں جسکی تائید میں کئی حدیثیں مروی ہیں

واللہ تعالی اعلم
کتبه
منظوراحمد یارعـــلوی



ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. یہ جو آپ نے لکھا ھے کہ سندا ثابت یہ لفظ ھیں خلقت الدنیا ۔۔۔ یہ بھی کھاں ثابت ھیں اسکی سند بیان کریں اور پھر راویوں کو پرکھیں، یہ بھی ثابت نھیں ھوگا ۔ من گھڑت روایت کو صحیح ثابت کرنا دین کاکام نھیں۔

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney